نور مقدم کا قاتل ایک سال بعد بھی سزا سے کیوں بچا ہوا ہے؟


نادار، یتیم بچوں سے محبت، شفقت کرنے والی، دل کو وطن کی محبت سے سرشار کرنے والی اسلام آباد کی زندہ دل نور مقدم کے لرزہ خیز قتل نے پاکستانی بیٹیوں کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا، لیکن اس وحشت ناک قتل کو ایک برس گزرجانے کے باوجود سفاک قاتل کو پھانسی کے پھندے پر نہیں لٹکایا جاسکا۔

نور مقدم کے والدین نے اردو نیوز کو انٹرویو میں بتایا ہے کہ نور مقدم کے قتل کے بعد ان کی زندگی ختم ہوگئی ہے، اب وہ رات کو سو نہیں پاتے، نور مقدم کے والد اور سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم نے بتایا کہ نور مقدم بہت غیر معمولی لڑکی تھی شاید اسی وجہ سے ان کو انصاف کے لیے لڑنے کی ہمت ملی ورنہ وہ کب کے ٹوٹ کر بکھر جاتے۔نور مقدم کے والد کا عزم ہے کہ نور مقدم کے قاتل ظاہر جعفر کی ٹرائل کورٹ سے ملنے والی سزائے موت پر عمل درآمد تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

یاد رہے کہ رواں برس فروری میں مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت جبکہ ان کے دو ملازمین جان محمد اور افتخار کو دس، دس سال قید کی سزا سنائی تھی، اس فیصلے کے خلاف ملزم ظاہر جعفر اور مدعی شوکت مقدم دونوں کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ابھی زیر سماعت ہیں۔ شوکت مقدم نے بتایا کہ نور مقدم کیس پاکستان کی بیٹیوں کا کیس ہے، میں اس سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹوں گا ورنہ امیر زادے یہی سمجھیں گے کہ کسی بھی پاکستان کی بیٹی کو قتل کر کے وہ آزاد گھوم سکتے ہیں، وہ قیامت کی رات تھی جو ناقابل بیان ہے۔ نور مقدم کے والد نے بتایا کہ وہ ہمارے لیے بہت قیامت کی رات تھی، میں بیان نہیں کر سکتا، نور مقدم کے والدین ایک دن قبل گھر سے جانے والی نورمقدم کو اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں ڈھونڈ رہے تھے مگر کسی طرف سے اطلاع نہیں ملی، اس سلسلے میں قاتل ظاہر جعفر کے والدین جو ان کے واقف کار تھے کو بھی فون کیا اور خود ظاہر جعفر سے بھی بات ہوئی مگر دونوں نے نور مقدم کی اپنے گھر موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

شوکت مقدم نے بتایا کہ ہمیں امید تھی کہ نور گھر آ جائے گی، ہم انتظار کر رہے تھے، دوسرے دن عید کا روز تھا اور ہم نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن جب اسلام آباد کے کوہسار پولیس سٹیشن سے مجھے کال آئی تو میں اسی کمرے میں بیٹھا تھا، خبر سن کر شدت غم سے میری چیخیں نکل گئیں، میری بیوی اور بیٹے بھاگے بھاگے میرے کمرے میں پہنچے، پولیس نے مجھے ہدایت کی کہ وہ فوراً تھانے پہنچیں مگر کسی خاتون کو ساتھ نہ لائیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ برداشت نہیں کر پائیں گی پھر میں ہمت کرکے تھانے پہنچا اور مجھے پولیس ملزم کے گھر لے گئی جہاں بیٹی کی لاش اور اس کی حالت دیکھ کر جو میری کیفیت ہوئی آپ سوچ نہیں سکتے، میں صدمے میں آ گیا اور زور زور سے رونا شروع کر دیا، شاید اللہ نے مجھے ہمت دی ورنہ میں ادھر ہی بے ہوش ہو جاتا اور بکھر کر ٹوٹ جاتا۔

شوکت مقدم کے مطابق نور مقدم کے قتل نے پاکستان کی سب بچیوں میں خوف کی لہر دوڑا دی، انہیں عدلیہ پر اعتماد ہے، جلد انصاف سے معاشرے میں پیغام جائے گا ورنہ لوگوں کا نظام انصاف سے اعتماد اُٹھ جائے گا، نورمقدم کے والد زیادہ تر عدالت میں سفید شرٹ اور سبز ٹائی پہن کر جاتے تھے جس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا جھنڈا سبز و سفید ہے، پاکستان کی بیٹیوں کا کاز ہے اس لیے میں سبز اور سفید پہنتا تھا، نور مقدم کے والدین نے مجرم کو جلد پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی کی جان لینا کوئی معمولی جرم نہیں کہ اسے چھوڑا جا سکے، آپ کسی کی جان نہیں لے سکتے آپ کسی کی جان چھین نہیں سکتے، یہ تو بے قصور کی جان چھینی گئی ہے اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں ایسا ہی ظلم ہوتا رہا تو ہمیں کھڑا ہونا پڑے گا، اپنی بیٹی کے لیے اور دوسروں کی بیٹیوں کے لیے تا کہ آئندہ کسی کی جرات نہ ہو ایسا ظلم کرنے کی۔ شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ ملزم ظاہر جعفر اور ان کے خاندان نے ان کے رشتہ داروں سے رابطہ کر کے مصالحت کی کوشش کی ہے مگر انہوں نے منع کر دیا، ہم کسی صورت نورمقدم کیس پر کمپرومائز نہیں کریں گے کیونکہ یہ کیس دوسروں کے لیے بھی ایک مثال ہے۔

شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ نور مقدم کئی یتیم خانوں میں تحائف تقسیم کرتی اور ناداروں کی مدد کرتی رہتی تھی، اس کے فلاحی کاموں کو جاری رکھنے کے لیے ملک بھر میں لوگوں نے اس کے نام سے پانی کے کنوے اور دیگر منصوبے قائم کیے ہیں، آج ایک پانی کا کنواں اس کے نام کا وقف کیا ہے اور مستقبل میں نورمقدم کے نام سے ایک فائونڈیشن بھی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button