نیا آرمی چیف سنیارٹی کی بنیاد پر لگانے کا حتمی فیصلہ

باخبر حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے ماضی میں جونیئر جرنیلوں کو ترقی دے کر آرمی چیف بنانے کے تلخ تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے اس مرتبہ ذاتی پسند ناپسند کی بجائے سینیارٹی کی بنیاد پر نیا آرمی چیف لگانے کا فیصلہ کیا ہے، اس لئے تین سینئر ترین جرنیلوں یعنی لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد اور لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس میں سے ایک کو آرمی چیف اور ایک کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی لگایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا بھی ریٹائر ہونے جا رہے ہیں۔

در حقیقت 29 نومبر 2022 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے اہم ترین فوجی عہدوں پر فائز پانچ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز ریٹائیر ہونے جا رہے ہیں اور یوں وہ نئے آرمی چیف کی دوڑ سے باہر ہو جائیں گے، جنرل قمر باجوہ کی توسیع شدہ مدت ملازمت 29 نومبر 2022 کو ختم ہورہی ہے لیکن حسب سابق ایک مرتبہ پھر ان کے عہدے میں توسیع کی افواہیں زوروں ہر ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنرل باجوہ مسلسل غیر ملکی دوروں پر ہیں اور اس وقت واشنگٹن میں موجود ہیں۔ حال ہی میں انہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اعلیٰ ترین سول اعزازات سے نوازا، اس سے پہلے وہ جس طرح سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے متحرک رہے ہیں اس کے پیش نظر بھی خیال کیا جاتا ہے کہ نیا آرمی چیف لانے کے بجائے انہیں ایک بار پھر ایکسٹینشن دے دی جائے گی۔

تاہم حکومتی حلقوں نے اس امکان کو سختی سے رد کیا ہے اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ جنرل باجوہ اپنی مدت پوری ہونے پر ریٹائیر ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے فوجی ترجمان میجر جنرل بابر افتخار بھی اپریل میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ جنرل باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے اور ان کا مزید توسیع لینے کا کوئی ارادہ نہیں۔

یاد رہے کہ جب سپریم کورٹ کے حکم پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کو توسیع دینے کے لیے قانون سازی کی تو سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کیلئے عمر کی حد 64 برس مقرر کی گئی تھی۔جنرل باجوہ ابھی 61 برس کے ہیں اور مدت ملازمت ختم ہونے سے چند ہفتے قبل 12 نومبر کو 62ویں سالگرہ منائیں گے یعنی تکنیکی اعتبار سے انہیں ایک اور ایکسٹینشن دینے میں کوئی مشکل نہیں، لیکن پی ڈی ایم کی حکومت ایسا کرنے کے موڈ میں نہیں اور چاہتی ہے کہ نیا آرمی چیف لایا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کی اندرون ملک اور بیرون ملک سرگرمیوں کو الوداعی سرگرمیاں سمجھنا چاہئیے بجائے کہ اس کے الٹ مطلب لیا جائے۔ انکے مطابق نئے آرمی چیف اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کے لئے مشاورتی عمل کا آغاز ہوچکا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ جنرل قمر باجوہ اور جنرل ندیم رضا کی جگہ لینے والے جرنیلوں کے ناموں کا اعلان اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں اکٹھے ہی کر دیا جائے۔

تجزیہ کار بلال غوری ماضی میں تعینات کیے جانے والے آرمی چیفس کا احاطہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے اسلم بیگ مرزا کی ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ پہلے ہی آصف نواز جنجوعہ کو ان کا جانشین مقرر کردیا گیا۔ اسکے بعد عبدالوحید کاکڑ اور پرویز مشرف کی تعیناتی کا فیصلہ اچانک کیا گیا لیکن سینیارٹی کے رسول کو کبھی بھی مدنظر نہیں رکھا گیا۔ پھر جب مشرف اور نواز شریف کے معاملات خراب ہوئے تو اچانک تب کے آئی ایس آئی چیف ضیاالدین خواجہ کو آرمی چیف تعینات کر دیا گیا جس کا نتیجہ 1999 کی فوجی بغاوت کی صورت میں سامنے آیا۔

جنرل اشفاق کیانی کی ریٹائرمنٹ پر نوازشریف نے نئے چیف بارے فیصلہ کرنے میں بہت تاخیر کی اور مقررہ تاریخ سے صرف دو دن پہلے 27 نومبر 2013 کو جنرل راحیل شریف کو نیا آرمی چیف بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح جنرل قمر جاوید باجوہ کو سپہ سالار بنانے کا اعلان بھی نواز شریف نے بطور وزیر اعظم 26 نومبر 2016 کو کیا۔ ان دونوں تعیناتیوں میں بھی سنیارٹی کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی راحیل اور باجوہ ادوار میں نواز شریف بطور وزیراعظم سخت مشکلات کا شکار رہے۔
ایسے میں پی ڈی ایم کی قیادت اس نتیجے پر پہنچتی دکھائی دیتی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے بھی سنیارٹی کا اصول اپنایا جائے۔ یاد رہے کہ جنرل قمر باجوہ کی 29 نومبر 2022 کو ریٹائرمنٹ سے پہلے پاکستان آرمی کے 5 سینئیر تری لیفٹیننٹ جنرلز ریٹائر ہورہے ہیں جس کے بعد جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ تبدیل ہو جائے گی۔

چونکہ 6 میجر جنرل 28 ستمبر 2018 کو پروموٹ کئے گئے تھے اور تھری اسٹار جنرل بننے کے بعد چار سال میں ریٹائر منٹ ہوتی ہے اس لئے کورکمانڈر منگلا لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر ،ڈی جی سٹریٹجک پلاننگ ڈویژن لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی منج ،کورکمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیز، انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن لیفٹیننٹ جنرل سید محمد عدنان اور ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹر لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف اکتوبر میں ریٹائیر ہورہے ہیں۔ اگرچہ کوارٹر ماسٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو بھی انہی 5 میجر جنرلز کے ساتھ ترقی دی گئی تھی مگر ان کو رینک تاخیر سے لگائے گئے لہٰذا انکی ریٹائرمنٹ بھی تاخیر سے ہونگی۔

تب لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار ڈی جی آئی ایس آئی تھے، ان کی ریٹائرمنٹ میں چند ہفتے باقی تھے۔ چونکہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی لگانا تھا اسلئے نوید مختار کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا گیا۔ 2018 میں لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کے ریٹائر ہوتے ہی لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے نئے رینک کیساتھ نیا عہدہ سنبھال لیا۔چنانچہ اب انکی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 26 نومبر بنتی یے۔

پاکستان آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹر میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دینے والے لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر احمد شاہ اس وقت سنیارٹی میں پہلے نمبر پر ہیں۔ وہ اس سے پہلے ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس، ڈی جی آئی ایس آئی اور کورکمانڈر گوجرانوالہ کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ سنیارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ہیں۔ انکا تعلق بھی جنرل فیض حمید کی طرح چکوال سے ہے اور دونوں گہرے دوست ہیں۔ ساحر شمشاد مرزا جنرل راحیل شریف کے دور میں ڈی جی ایم او رہے، لیفٹیننٹ جنرل کے رینک پر ترقی پانے کے بعد انہیں چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کیا گیا جو آرمی چیف کے بعد سب سے طاقتور ترین عہدہ ہے۔

سینیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر موجودہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس ہیں۔ وہ اس سے پہلے مری میں 12ویں انفنٹری ڈویژن کو کمانڈ کرچکے ہیں، اظہر عباس ماضی میں راحیل شریف کے پرسنل اسٹاف افسر رہے۔ پھر لیفٹیننٹ جنرل کے رینک پر ترقی پانے کے بعد وہ کورکمانڈر راولپنڈی تعینات کئے گئے۔ سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود ہیں جنہوں نے اس سے پہلے شمالی وزیرستان میں انفنٹری ڈویژن کو کمانڈ کیا اور پھر کورکمانڈر پشاور رہے۔ پانچویں نمبر پر کورکمانڈر گوجرانوالہ لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر ہیں جو لاہور میں انفنٹری ڈویژن کمانڈ کرچکے ہیں، وہ سابق صدر آصف زرداری کے ملٹری سیکرٹری بھی رہے ہیں اور جی ایچ کیو میں بطور ایڈجوٹنٹ جنرل بھی کام کیا ہے۔ جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر پر کور کمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل چراغ حیدر ہیں جبکہ ساتویں نمبر پر موجودہ آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم موجود ہیں۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت نے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے اس بار ذاتی پسند ناپسند کے بجائے سنیارٹی کی بنیاد پر تعیناتیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسلئے تین سینئر ترین جرنیلوں یعنی لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد اور لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس میں سے کسی ایک کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور دودرے کو آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button