نیا اٹارنی جنرل حکومت کے ساتھ ہے یا جسٹس بندیال کے؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی خواہش پر وفاقی حکومت کی جانب سے تعینات کیے گئے نئے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی نے حسب توقع حکومت کی بجائے چیف جسٹس کے مفادات کا تحفظ شروع کر دیا ہے اور کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ تاہم دوسری جانب پارلیمنٹ میں بھی نئے اٹارنی جنرل کی اس روش کے خلاف غم و غصے کا اظہار شروع ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں چند روز پہلے سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے دیے گئے ریمارکس پر وضاحت کے لیے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی کی جانب سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو لکھے گئے خط پر سینیٹ میں احتجاج کیا گیا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے مجھے خط لکھا ہے، جسے میں سمجھتا ہوں کہ امانت کے طور پر ہاؤس کے سامنے رکھا جائے۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بتایا کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے مجھے بھی خط لکھا ہے۔ اس دوران اعظم نذیر تارڑ نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے وضاحت نہیں کی، بلکہ ایک بیانیہ دیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ وہ خود کورٹ میں موجود تھے، اور وہاں جسٹس بندیال نے ’ملک کا صرف ایک ہی وزیراعظم دیانتدار تھا‘ جیسی کوئی بات نہیں کی۔
اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ اٹارنی جنرل نے یہ جرات کی ہے کہ ہاؤس کی کارروائی کی وضاحت کریں، اٹارنی جنرل کو یہ استحقاق ہے کہ وہ دونوں ہائوسز میں آکر بیٹھ سکتا ہے، وہ اس ہاؤس کا رکن نہیں، اس ہاؤس کی کارروائی پر کنٹرول نہیں کر سکتا، اٹارنی جنرل اس ہاؤس کی کارروائی پر وضاحت جاری نہیں کر سکتے نہ بات کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب عدلیہ کی جانب سے پارلیمنٹ کے اوپر حملہ ہوتا ہے تب بھی اٹارنی جنرل کو عدالت میں کھڑے ہوکر پارلیمنٹ کا دفاع کرنا چاہیے، اٹارنی جنرل کے اس خط پر تحفظات ہیں، ریکارڈ کے لیے وہ خط اس ہاؤس کے سامنے رکھا جائے۔ اس پر وزیر قانون نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے صرف وضاحت کی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا جو سوشل میڈیا پر چلا، جواب میں رضا ربانی نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو کس نے تبصرے کرنے کا حق دیا ہے، وضاحت کرنی ہے تو رجسٹرار صاحب وضاحت جاری کریں۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے دیے گئے ریمارکس پر سینیٹ اراکین کے شدید اعتراض پر اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے وضاحت کے لیے گزشتہ روز وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو خط لکھا تھا۔ اٹارنی جنرل نے اپنے خط میں کہا کہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس سے متعلق غلط رپورٹنگ کی گئی ہے جس کے ردعمل میں سینیٹرز نے تنقید کی، چیف جسٹس نے یہ نہیں کہا تھا کہ صرف محمد خان جونیجو ہی ایماندار وزیر اعظم تھے، وزیر اعظم کی دیانتداری سے متعلق چیف جسٹس کے ریمارکس کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے مزید لکھا تھا کہ نیب ترامیم کیس کی سماعت میں، میں خود موجود تھا اور اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ دوران سماعت ایسی کوئی بات نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس 1988 میں سپریم کورٹ کی جانب سے قومی اسمبلی کی بحالی کا حکم نہ دینے کے تناظر میں دیے تھے اور سابق چیف جسٹس نسیم حسن کے مؤقف کو دہرایا تھا جنہوں نے نواز شریف کیس میں اسمبلی بحال نہ کرنے پر پچھتاوے کا اظہار کیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے لکھا کہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ محمد خان جونیجو ایک اچھے اور آزاد وزیر اعظم تھے جن کی حکومت 58 (2) بی کے تحت ہٹائی گئی۔انہوں نے اعظم نذیر تارڑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خط اس توقع کے ساتھ آپ کو لکھا جارہا ہے کہ آپ اس حوالے سے ریکارڈ درست کرنے کے لیے اپنے ساتھی اراکین پارلیمنٹ کے سامنے حقائق پیش کریں گے۔خیال رہے کہ 9 فروری کو سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترمیم کے خلاف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے سے ہی ممکن ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے، موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ عدالت اس سے پہلے بھی ایک بار اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کر چکی ہے، پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیر اعظم آئے تھے جو بہت دیانتدار سمجھے جاتے تھے، ایک دیانتدار وزیراعظم کی حکومت 58 (ٹو) (بی) کے تحت ختم کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 58 (ٹو) (بی) کالا قانون تھا، عدالت نے 1993 میں قرار دیا تھا کہ حکومت غلط طریقے سے گئی لیکن اب انتخابات ہی کرائے جائیں۔ 10 فروری کو سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے دیے گئے ریمارکس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے یہ کیسے کہہ دیا کہ پارلیمنٹ متنازع ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز ایک ایسے مقدمے میں ریمارکس دیے جس کا الیکشن سے براہ راست تعلق نہیں تھا‘۔انہوں نے کہا کہ ’یہ ریمارکس کیا ہیں کہ ہماری تاریخ میں ایک وزیراعظم دیانتدار تھا، اگر اس طرح کے ریمارکس ہم ججوں کے بارے میں دیں اور کہیں ہماری پوری تاریخ میں ایک ہی چیف جسٹس دیانتدار تھا تو کیا وہ قابل قبول ہوگا‘۔
چیف جسٹس کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ ’پتا نہیں انہیں یہ استحقاق کس نے دیا کہ لیاقت علی خان سے عمران خان تک تمام کو یک جنبش قلم بددیانت قرار دے کر صرف ایک کے بارے میں فتویٰ دیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے عدلیہ کا اس وقت بھی احترام کیا، جب بھٹو کو پھانسی دی گئی، ہم نے عدلیہ کا اس وقت بھی احترام کیا، جب ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ 4 مارشل لاز کی توثیق کی گئی‘۔انہوں نے کہا تھا کہ ’انہوں نے یہ کیسے کہہ دیا کہ پارلیمنٹ متنازع ہوگئی ہے، کیوں متنازع ہوگئی ہے، پارلیمنٹ اکثریت کا نام ہے، قومی اسمبلی میں آج بھی اکثریت بیٹھی ہوئی ہے اور اکثریت قانون بناتی ہے، سینیٹ اکثریت سے قانون بناتی ہے‘۔عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ ’ایسی باتیں جو ہماری توقیر پر حملہ ہے، ہماری تکریم پر حملہ ہے، ہماری پارلیمنٹ کی خود مختاری پر حملہ ہے، پارلیمنٹ کے وقار پر حملہ ہے، پارلیمنٹ کی عزت پر حملہ ہے، پارلیمنٹ کے نام پر حملہ ہے تو ایسی چیزیں نہ کریں، ہم ادب، احترام اور بڑی عاجزی کے ساتھ کہہ دیں نہ وہ عوام کے نمائندے ہیں اور نہ افواج پاکستان عوام کی نمائندہ بلکہ یہ ایوان عوام کا نمائندہ ہے‘۔