وزیرآباد میں پی ٹی آئی کا ورکرعمران کے گارڈز نے مارا


وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تفتیش کرنے والے سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ سر پر گولی لگنے سے مرنے والا معظم حملہ آور کی فائرنگ سے نہیں مرا بلکہ جی تھری رائفل کی گولی کا شکار ہوا جو بظاہر عمران کے گارڈ نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے کنٹینر سے چلائی۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان پر حملہ کرنے والے ملزم نوید احمد نے جو پستول استعمال کیا اس سے چلائی گئی 9 گولیوں کے خول جائے وقوعہ سے ڈھونڈ لیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کنٹینر پر عمران کے ساتھ موجود گارڈ کی جانب سے چلائی گئی دو گولیوں کے خول بھی ڈھونڈ لیے گئے ہیں۔ اس واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم نوید احمد کی جانب سے کنٹینر پر فائرنگ کے چند ہی لمحوں بعد عمران کا ایک گارڈ کنٹینر سے دو فائر کرتا ہے۔ مرنے والے تحریک انصاف کے ورکر معظم کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق جی تھری رائفل کی ایک گولی نے اس کے سر کی ہڈی توڑ دی تھی جس سے اسکی موت واقع ہوئی۔ بظاہر یہ گولی عمران کے گارڈ کی جانب سے فائرنگ کرنے کے بعد بھاگنے والے ملزم نوید کا نشانہ لیتے وقت داغی گئی جو معظم کے سر میں لگی۔ اس وقت معظم فائرنگ کرنے والے نوید کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔

سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ عمران خان کے گارڈ کی دوسری گولی بظاہر ایک دس سالہ بچے کے پیٹ میں لگی جو اب بھی ہسپتال میں ہے۔ یہ گولی بھی جی تھری رائفل کی ہے جو عمران کے سرکاری گارڈز استعمال کرتے رہے تھے۔ جی تھری کو اسالٹ رائفل بھی کہا جاتا ہے۔ جی تھری رائفل کو عموماً قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور سکیورٹی گارڈز استعمال کرتے ہیں۔ انویسٹی گیشن میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے وزیر آباد حملے میں 14 افراد کو گولیاں لگنے کا دعویٰ غلط اور حقائق کے منافی ہے۔ اس واقعے میں صرف ایک شخص معظم کو گولی لگی جس سے اس کی موت واقع ہو گئی جبکہ ایک دس سال کا بچہ زخمی ہوا۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے کنٹینر پر صرف دو گولیاں لگیں جو بلٹ پروف ہونے کی وجہ سے غیر موثر رہیں البتہ اِن گولیوں کے لوہے کی چادر میں لگنے سے کچھ ٹکڑے اُڑ کر فیصل جاوید کے چہرے اور عمران کی لیفٹ والی ٹانگ پر لگے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے جن 14 افراد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان کو تحقیقاتی ادارے ابھی تک نہیں ڈھونڈ پائے۔ دلچسپ یہ کہ پنجاب کے کسی ہسپتال میں ان زخمیوں کا نہ علاج ہوا نہ مرہم پٹی ہوئی اور نہ ان کے زخمی ہونے کی کوئی میڈیکل لیگو رپورٹ کسی بھی ہسپتال کے ریکارڈ میں پائی گئی، پی ٹی آئی والوں کو خطرہ یہ ہے کہ میڈیکل لیگو کے معائنے میں عمران کے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ اسی وجہ سے عمران خان انتہائی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر شوکت خانم اسپتال منتقل ہوئے۔

دوسری جانب عمران پر حملہ کرنے والے ملزم نوید احمد نے بھی اپنے بیان میں پولیس کو بتایا ہے کہ مارا جانے والا شخص ان کی فائرنگ کا نشانہ نہیں بنا چونکہ کنٹینر سے جوابی فائرنگ کے بعد وہ بھاگ رہا تھا جبکہ چند لوگ اسے پکڑنے کے لیے اسکے پیچھے دوڑ رہے تھے، ویسے بھی اسکی پسٹل میں گولی پھنسی چکی تھی اور وہ مزید فائر کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ معظم دراصل عمران کے گارڈز کی فائرنگ سے مارا گیا۔ گولی اوپر سے آئی اور اسکے سر میں لگی چونکہ عمران کے گارڈز مجھے نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ لانگ مارچ کے دوران فائرنگ سے ہلاک ہونے والے معظم گوندل، جائے وقوعہ یعنی اللہ والا چوک سے تین کلومیٹر دور واقع مصطفیٰ آباد کے رہائشی تھے۔ معظم نے سوگوران میں دو کمسن بیٹے اور ایک نوعمر بیٹی چھوڑی ہے۔ معظم کا بڑا بیٹا کلاس چہارم جبکہ چھوٹا بیٹا پہلی کلاس کا طالبعلم ہے۔

Related Articles

Back to top button