عمران کی طرح شہباز بھی ڈیپ سٹیٹ کے رحم و کرم پر کیوں؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حفیظ للہ نیازی نے کہا ہے کہ عمران خان حکومت کی طرح شہباز شریف حکومت بھی مکمل طور پر ریاست کے رحم و کرم پر چل رہی ہے اور اسے بھی پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا ہوگا کیونکہ ڈیپ سٹیٹ کا کمبل ایسا چمڑی ہے کہ اس سے جان چھڑوانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔

روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمران خان کے سابقہ بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ ریاست کے اندر ریاست یعنی ڈیپ سٹیٹ ایک ایسی بلا ہے جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی وجود میں آ گئی تھی؟ 7 جنوری 1951 وہ دن تھا جب پاکستان آرمی وجود میں آئی، اور لیفٹیننٹ جنرل ایوب خان اسکے پہلے سپہ سالار بنے۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ عسکری قیادت نوزائیدہ ریاست کے سیاسی نظام کو اس بری طرح سے اپنے شکنجے میں جکڑ لے گی۔ نیازی کہتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ گو 70 سال پہلے ریاست کے اندر مضبوط ریاست نے جنم لیا۔ اوائل میں سول بیورو کریسی مضبوط اسٹیبلشمنٹ کے طور پر ابھری اور چند سال کے اندر توانا، طاقتور اور بلاشرکت غیرے خم ٹھونک کر سامنے آگئی۔ یوں ریاست کے اندر ریاست کی تاریخ رقم ہونے کا آغاز گیا۔

اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتوں کو مایوس نہیں کیا جائے گا

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ ڈیپ سٹیٹ تھا یا ریاست کے اندر ریاست اب ایک باقاعدہ پولیٹیکل ٹرم کے طور پر استعمال میں ہے۔ جدید ریاستی نظام پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے ہے کہ ایسا نظام صدیوں سے موجود، ہر ملک میں دامے درمے اس کا وجود بھی۔چند سال پہلے ہیلری کلنٹن سے اس بارے پوچھا گیا، سوال:’’ یہ DEEP STATE ہے کیا؟‘‘ پہلے تو ہیلری ہڑبڑا گئی، پھر کہا کہ ’’میں اس کی مثال کچھ ایسے دوں گی کہ قائداعظم نے سیاسی جدوجہد سے پاکستان بنایا لیکن فوج نے پیچھے رہ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور حکومتوں کی تبدیلی بزور بازو کی، پردہ سیمیں میں ریاست کو کنٹرول کر رہے ہیں‘‘۔ ہیلری کلنٹن کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے تو امریکہ کے درجنوں جرائم، اقوام عالم کی اْتھل پتھل اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے میں مؤثر کردار، مگر تفصیل طلب کرنے کی اس وقت گنجائش موجود نہیں۔

نیازی کہتے ہیں کہ پاکستان سے بھلا یہ اعزاز کون چھین سکتا ہے کہ 27جنوری 1951 کو ادھر کمان پاکستانی جرنیلوں کے ہاتھ آئی تو اْدھر ریاست کے اندر ریاست کا وجود قائم ہو گیا۔ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے گٹھ جوڑ کر کے غلام محمد کو گورنر جنرل بنایا، گورنر جنرل غلام محمد نے اسی سازش کو آگے بڑھایا اور ناظم الدین کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔سپریم کورٹ نے کندھا بڑھایا اور برطرفی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ گورنر شاہد حامد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک دن گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم ناظم الدین سے استعفیٰ طلب کیا۔ تب نکے دائیں بائیں کمانڈر انچیف جنرل ایوب اور سیکرٹری دفاع جنرل سکندر مرزا بیٹھے تھے۔ ناظم الدین کے انکار پر ان کو برطرف کر دیا گیا‘‘۔

اگلے چند سال میں6 وزرائے اعظم کی ایسی شناخت پریڈ کہ جواہر لعل نہرو کو کہنا پڑ گیا کہ ’’اتنے پاجامے نہیں بدلے جاتے جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدلے جا رہے ہیں‘‘ 1964-65 کے انتخابات میں فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑا تو انہیں غداری کے الزمات اور کردار کشی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو صاحب کا اقتدار اس لیے منفرد ہے کہ فوج 1971 میں بھارت سے شکست کے بعد پژمردگی کا شکار تھی، لیکن آفرین کہ 6 لاکھ فوج کو بھارتی قید سے چھڑوانے والے بھٹو کو فوج نے پھانسی پر لٹکا دیا۔ پھر اپنے ہاتھوں سے جونیجو کا بت تراشنے والے جنرل ضیاء نے ہی اس کی حکومت توڑ دی۔ پھر بے نظیر بھٹو، نوازشریف، اور نواز شریف اور بے نظیر کی SEE SAW جاری رہی۔ بطور مشرف کے وزیر اعظم، میر ظفراللہ جمالی جونیجو سے بھی کمزور تھا اور ایک سال بمشکل نکال پائے۔ 2008 میں زرداری، 2013 میں نواز شریف اور 2018 میں عمران خان حکمران ضرور رہے، لیکن تمام اہم قومی فیصلے ایوان وزیر اعظم سے باہر ہوتے رہے۔

حفیظ اللہ نیازی اپنا تجزیہ آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان سیاسی سوچ سمجھ، فہم و فراست سے محروم ہونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط ور اسکے مرہون منت رہے۔ لیکن انہوں نے ابھی تک ہمت نہیں ہاری، لیکن شاید عمران خان کا نام تاریخ کی کتابوں میں درج نہ ہو پائے۔ اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت بھی مکمل طور پر ریاست کے رحم و کرم پر ہے اور انہیں بھی عمران خان کی طرح پرانی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا کیونکہ ڈیپ سٹیٹ اب وہ کمبل بن چکی ہے جس سے پاکستان کی جان چھڑوانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن لگتا ہے۔

Related Articles

Back to top button