باکسر محمد اسلم کی رِنگ میں مکا لگنے سے موت، ذمہ دار کون؟

بلوچستان کے علاقے پشین سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ باکسر محمد اسلم خان نے اپنے تینوں بھائیوں سے دو وعدے کیے تھے۔ چاہے وہ تعلیم حاصل کریں، یا باکسنگ کرنے کا شوق پورا کریں، اسلم ان کی خواہشات ہر صورت میں پوری کریں گے۔
لیکن ہفتہ کی شب پروفیشنل باکسنگ کرنے والے محمد اسلم خان کراچی میں منعقد کیے گئے ایک مقابلے میں جبڑے پر مکا لگنے سے گرے اور جانبر نہ ہو سکے۔
اسلم خان نے سوگواروں میں بیوہ، دو کم سن بچیاں اور تین چھوٹے بھائی چھوڑے ہیں۔ والد کے انتقال کے بعد اسلم خان باکسنگ اور محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرتے تھے۔اسلم خان کے کزن حسیب خان نےمیڈیا کو بتایا کہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے بھائیوں کے لیے اسلم خان ہی ان کے والد کی جگہ تھے۔
‘وہ نہ صرف اپنے بھائیوں کی تعلیم کا بہت خیال رکھتے تھے بلکہ ان کی باکسنگ کی تربیت بھی کرتے تھے۔ ان کی نگرانی بھی کرتے تھے اور ہر طرح کے اخرجات بھی پورے کرتے تھے۔’حسیب خان کا کہنا تھا کہ اسلم خان کی دو کم عمر بیٹیاں ہیں جن سے وہ بے حد پیار کرتے تھے۔
‘اسلم اکثر محفلوں میں ان کا ذکر کرتے تھے۔ شادی اور بچوں کی پیدائش سے پہلے ایسے ہوتا تھا کہ وہ دیر تک بیٹھا کرتے تھے مگر جب سے شادی ہوئی تھی انھوں نے زیادہ دیر تک بیٹھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ میری بیٹیاں اور اہلیہ انتظار کر رہی ہوں گی اور یہ کہ ان کو بغیر کسی مناسب وجہ کے انتظار کروانا اچھا نہیں ہے۔’حسیب خان کا کہنا تھا کہ اسلم خان نے زندگی میں بڑا سخت وقت دیکھا تھا۔
‘ان کے والد ایک مزدور پیشہ شخص تھے۔ اس کے بعد اسلم خان نے خود محنت مزدوری کی تھی۔ وہ دن بھر محنت مزدوری کرتے اور پھر شام کو باکسنگ پریکٹس کرتے تھے۔’حسیب خان کا کہنا تھا کہ اسلم اکثر انھیں بتاتے تھے کہ حالات نے اتنی اجازت نہیں دی کہ زیادہ عرصہ باکسنگ کر سکیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بھائیوں کو باکسنگ کرنے اور اس کی تربیت کے بھرپور مواقع فراہم کر سکیں۔
ہفتہ کی رات کراچی میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرنے والے ایک نجی کلب میں باکسنگ کے چھ مقابلے منعقد کیے گئے تھے۔ اس سلسلے کی آخری فائٹ باکسر اسلم خان اور کراچی کے باکسر ولی خان کے درمیان تھی۔اس فائٹ کے آخری راؤنڈ کے دوران یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا جب اسلم خان حریف باکسر کا مکا جبڑے پر لگنے کے بعد رنگ میں گر پڑے۔ اس دوران ریفری نے گنتی کے ذریعے فائٹ ختم کر دی لیکن اسلم خان جب ہوش میں نہیں آئے تو انھیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ وفات پا گئے۔
محمد اسلم خان کے کوچ سردار محمد کاکڑ اس میچ کے موقع پر موجود تھے۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ محمد اسلم 81 کلو کی کیٹگری میں باکسنگ کرتے تھے اور گذشتہ چار سال سے ان کے زیر تربیت تھے۔’وہ ایک سخت جان باکسر تھے۔ گذشتہ تین، چار سالوں کے دوران انھوں نے صرف مصر میں ہونے والی ایک فائٹ میں شکست کھائی تھی اور وہ مقابلہ بھی انتہائی سخت تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے تمام بین الاقوامی مقابلوں میں اپنے حریفوں کو پہلے راؤنڈ ہی میں ناک آوٹ کردیا تھا۔’
سردار محمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ جس مقابلے اور مکے پر یہ حادثہ ہوا ’وہ ایک کمزور مکا‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ محمد اسلم کے لیے اس کو سہہ جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر ’بدقسمتی سے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ گر گیا جس سے وہ زخمی ہوا۔ ہم لوگ فوراً اس کو ہسپتال لے کر گئے مگر وہ جانبر نہ ہوسکا۔’
سردار محمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ محمد اسلم انتہائی محنتی باکسر تھے۔’وہ تربیت کے اوقات کے علاوہ بھی سخت محنت کرتا تھا۔ وقت کا پابند تھا۔ ایک بڑا اور اچھا باکسر ہونے کے باوجود اس میں عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جتنی عزت وہ اپنے والد کی کرتا تھا۔ اتنی ہی عزت میری کرتا تھا۔’سردار محمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ اسلم اپنے جونیئرز کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور دوران تربیت اکثر اوقات ان کی مدد کرتے اور ان کو مختلف مشورے بھی دیتے تھے۔
باکسر اسلم خان کی کراچی میں باکسنگ مقابلے کے دوران موت واقع ہو جانے کے بعد کئی ذہنوں میں یہ سوال آیا ہے کہ ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟اسلم خان کی موت پر پولیس میں رپورٹ درج نہیں ہوئی ہے۔کراچی کے نجی کلب میں ہونے والے ان باکسنگ مقابلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ پاکستان باکسنگ کونسل کے تحت منعقد کیے گئے تھے جو ملک میں پروفیشنل باکسنگ مقابلے کرا رہی ہے اور اس کے صدر پاکستان کے سابق انٹرنیشنل باکسر رشید بلوچ ہیں جو نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ کے لیے کوئی تسلیم شدہ ادارہ نہیں ہے اور باکسنگ کے عالمی ادارے آئبا اور انٹرنیشنل اولمپکس ایسوسی ایشن سے منظور شدہ ادارہ صرف پاکستان باکسنگ فیڈریشن (پی بی ایف) ہے جو کہ ایمچر (غیر پیشہ ور) مقابلے منعقد کراتی ہے۔پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے سیکریٹری کرنل (ریٹائرڈ) ناصر اعجاز تونگ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ باکسر اسلم خان کی موت اتفاقیہ حادثہ نہیں ہے بلکہ ’یہ غفلت کا نتیجہ ہے‘۔
کرنل ناصر تونگ نے دعویٰ کیا کہ ان باکسنگ مقابلوں میں باکسرز کے لیے کسی قسم کے حفاظتی اور احتیاطی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔’عام طور پر جب بھی باکسنگ مقابلے ہوتے ہیں ان سے پہلے باکسرز کا میڈیکل کیا جاتا ہے۔ ان کا ایم آر آئی اور سی ٹی سکین ضروری ہوتا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ باکسر کو کسی دماغی چوٹ کا سامنا تو نہیں ہے۔’
کرنل ناصر نے کہا کہ اسلم خان کی فائٹ کی جو ویڈیو انھوں نے دیکھی ہے اس میں ریفری نے فوری طور پر ڈاکٹر کو طلب کرنے کے بجائے ناک آؤٹ گنتی جاری رکھی جبکہ اسے باکسر کے مہلک وار کے فوراً بعد گنتی کرنے کے بجائے طبی امداد کے لیے ڈاکٹر کو طلب کرلینا چاہیے تھا۔
کرنل ناصر تونگ نے الزام عائد کیا کہ ملک میں پروفیشنل باکسنگ کے نام پر نوجوان باکسرز کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان باکسنگ فیڈریشن ملک میں پروفیشنل باکسنگ کے نام پر ہونے والے ان مقابلوں کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی ان کی اجازت دیتی ہے اور ان کا ادارہ حکومت سے رابطہ کر رہا ہے تاکہ اس طرح کے مقابلوں کی روک تھام ہو سکے۔
‘پاکستان باکسنگ فیڈریشن سے ملحقہ تمام اداروں کو بھی باور کرا دیا گیا ہے کہ ان کے باکسرز اور کوچز کسی بھی ایسے باکسنگ ایونٹ میں حصہ نہیں لے سکتے جو پاکستان باکسنگ فیڈریشن سے منظور شدہ نہیں ہے۔’کرنل ناصر نے مزید کہا کہ اس ضمن میں دو رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو اس واقعے کی تمام تر تفصیلات سے فیڈریشن کو آگاہ کرے گی۔
اسلم خان کی موت کے حوالے سے پاکستان باکسنگ کونسل کے صدر رشید بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ باکسنگ ایک خطرناک کھیل ہے اسی لیے پروفیشنل باکسرز فائٹ سے پہلے کنٹریکٹ سائن کرتے ہیں جس میں انھیں تمام تر خطرات سے پیشگی آگاہ کیا جاتا ہے۔
رشید بلوچ نے کہا کہ اسلم خان کی موت یقیناً افسوسناک واقعہ ہے لیکن پروفیشنل باکسنگ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور گذشتہ سال نیوزی لینڈ میں بھی اسی طرح ایک باکسر کی موت واقع ہوئی تھی۔ان کا کہنا تھا ‘ایسی صورتحال میں کیا یہ کھیل بند کر دیا جائے؟ فضائی حادثے ہوتے ہیں لیکن فضائی سفر جاری رہتے ہیں۔’رشید بلوچ نے اس بات کو غلط قرار دیا کہ ان کی باکسنگ کونسل کے تحت ہونے والیے مقابلوں سے قبل باکسرز کا میڈیکل نہیں ہوتا۔انھوں نے کہا کہ ہر مقابلے سے پہلے باکسرز کا مکمل طبی معائنہ کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں پنجاب گورنر ہاؤس میں ہونے والے مقابلوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ باکسر محمد وسیم کو اس وجہ سے شرکت سے روک دیا گیا تھا کیونکہ ان کے پاس میڈیکل کلیئرنس کا خط نہیں تھا جو باہر سے آنے والے باکسرز کے پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔البتہ رشید بلوچ نے یہ واضح کیا کہ امیچر اور پروفیشنل باکسنگ میں فرق ہے اس لیے ان کی پاکستان باکسنگ کونسل کو پاکستان باکسنگ فیڈریشن سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے سابق انٹرنیشنل ریفری جج علی اکبر شاہ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان باکسنگ کونسل کو ورلڈ باکسنگ کونسل تسلیم کرتی ہے، تاہم انھوں نے کہا کہ پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ افسوسناک ہے۔’عام طور پر دنیا میں باکسرز اولمپکس میں حصہ لینے کے بعد پروفیشنل باکسنگ کا رخ کرتے ہیں لیکن پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ کے نام پر تماشہ جاری ہے۔’علی اکبر شاہ کا کہنا ہے کہ اسلم خان کی موت پر کسی قسم کی قانونی کارروائی اس لیے نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی مرضی سے ان مقابلوں میں حصہ لے رہے تھے اور یہ موت حادثہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button