پاکستان کی معاشی بدحالی کا اصل ذمہ دار کون؟

گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے پاکستان کے سیاست دانوں کے درمیان جہاں سیاسی رسہ کشی جاری ہے تو وہیں مہنگائی کے ستائے عوام بمشکل اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔ اس وقت مہنگائی اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے جبکہ کچھ ماہرین کے مطابق اس میں آنے والے مہینوں میں مزید اضافہ ہو گا۔اس سے قبل 2022 کی گرمیوں میں ملک کا بیشتر حصہ سیلاب کی نذر ہو گیا جس کے متاثرین کی بحالی کے لیے پاکستان دیگر ممالک کی جانب دیکھ رہا ہے کیونکہ معاشی بدحالی کے باعث پاکستان کے پاس اس وقت ضروری درآمدات کے لیے بھی ڈالرز نہیں ہیں۔پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی افراتفری کا شکار ہےاور افسوس کے ساتھ حالات اس نہج سے واپس جاتے ہوئے نظر نہیں آتے۔پچھلے20 سالوں سے پاکستان کی معیشت ڈرِپ پر چل رہی ہے۔ یعنی اس کو ایک ڈرِپ اکانومی کہہ سکتے ہیں۔بہت سالوں سے بہت بری پالیسیاں ہم اپنا رہے ہیں، جس کے اثرات آج ہم دیکھ رہے ہیں۔

 

یہ جوابات ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے باغی سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر، سابق وزیرِ خزانہ مِفتاح اسماعیل اور محقق اور مصنف عافیہ شہربانو ضیا کا جب ان سے بی بی سی نے پوچھا کہ اگر پاکستان کی موجودہ صورتحال کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو وہ کیا ہو گا۔پاکستان اس نہج تک کیسے پہنچا؟ اس بارے میں سابق وزیرِ خزانہ مِفتاح اسماعیل نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ اس خام خیالی میں ہیں کہ اگلے پانچ سال میں پاکستان کا قرض ختم ہو جائے گا۔ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اس سال اگر آپ نے 20 ارب دینے ہیں تو آپ کے پاس تو نہیں۔ آپ کہیں اور سے قرض لے کر دیں گے۔ تو بنیادی طور پر آپ اتنے سال میں کسی ایک ملک سے قرض لے کر دوسرے ملک کو لوٹا رہے ہیں۔ یا کسی ایک ادارے، جیسے کہ ورلڈ بینک سے قرض لے کر ایشیائی ترقیاتی بینک کو دے رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ آپ اس بات کو ایسے سمجھ لیں کہ پاکستان کی تاریخ میں سے صرف چار سال چھوڑ کر ہر سال پاکستان تجارتی خسارے میں جاتا رہا ہے۔ دیگر ممالک سے زیادہ چیزیں خریدتا اور انھیں کم بیچتا ہے۔ آپ کو کچھ نہ کچھ پیسے لے کر غیر ملکیوں کو دینے ہوتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس تو ڈالرز نہیں۔

 

مصنف اور محقق عافیہ شہربانو ضیا نے اس بارے میں کہا کہ ٹیکس نہ جمع کرنا اس نہج تک پہنچنے کی ایک وجہ ہے۔ درآمدات زیادہ ہیں جبکہ برآمدات کم ہیں۔ جس کے نتیجے میں بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل آ جاتے ہیں۔ جس سے مراد یہ ہے کہ ملک کی معیشت مالی ادویات پر چل رہی ہے۔ جس سے مریض کو تھوڑے عرصے کے لیے آرام تو آجاتا ہے لیکن یہ کوئی علاج نہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ پاکستان اس نہج تک ملک کی اشرافیہ کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں پہنچا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس ملک میں فوج کی براہ راست مداخلت رہی ہے۔ فوج ایک عرصے تک اقتدار میں رہی۔ پھر فوج کی بالواسطہ مداخلت بھی رہی۔ پھر ہم نے ہائبرِڈ نظام دیکھا جس کا حالیہ دور میں ایک تجربہ کیا گیا۔ تو ان 75 سال میں ہم نے ملک کے اندر تجربات پر تجربات کیے۔

 

پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار کون؟ اس سوال کے جواب میں مصطفیٰ نواز کا کہنا ہے کہ سب (لوگ) ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی جان نہیں چھڑا سکتیں۔ ان کے ذمے جو الزام آتا ہے وہ انھیں قبول کرنا پڑے گا۔ اگر اس ملک میں اصلاحات نہیں کی گئیں یا بیوروکریسی ٹھیک نہیں ہوئی، ریاست کا نظام ٹھیک نہیں کیا گیا، تو سیاستدانوں کے اوپر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے اوپر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔ پسند ناپسند کی بنیاد پر اپنی مرضی کے حکمران لے کر آئے اور اس سے ایک بحران پیدا ہوتا گیا اور اس بحران نے معاشی بحران کو جنم دیا۔مصطفیٰ نواز نے کہا کہ عدلیہ بھی ذمہ دار ہے کہ وہ لوگوں کو اس ملک میں انصاف نہیں دے سکی۔ اگر آج بھی آپ کوئی سول کیس فائل کریں تو انصاف ملنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔جبکہ عافیہ نے کہا کہ پچھلے بیس سال میں کسی بھی سیاسی جماعت یا ماہرِ معاشیات نے کوئی حل نہیں نکالا اور نہ ہی کوئی بحث ہوئی۔ ان حالات پر کوئی بیانیہ نہیں بنا اور نہ ہی کوئی حل نکل سکا۔

 

مفتاح اسماعیل کے مطابق سیاستدان، فوج، عدلیہ، بیوروکریسی سب موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں۔دیگر شراکت دار جیسے کہ مولوی صاحبان ہیں جنھوں نے مثال کے طور پر آبادی سے متعلق منصوبہ بندی کو متنازع بنا دیا۔ میڈیا بھی ذمہ دار ہے، اگر آپ پٹرول کی قیمت میں تین روپے اضافہ کر دیں تو میڈیا چِلانا شروع کردیتا ہے کہ پٹرول بم مار دیا۔ بھئی، ہم نے جو تین روپے اضافہ کیا وہ حکومت کے خزانے میں جا رہا ہے، ہم اپنے گھر تو نہیں لے کر جا رہے ہیں۔مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے۔ ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں اور دوسری جانب سے بھی جواب آتا ہے اور سیاست میں ایک بہت برا ماحول ہے جو ٹھیک کرنا ہوگا اور اس کے بعد معاشی استحکام لانے کے لیے لوگوں کے ساتھ سچ بولنا پڑے گا۔ اگر آج ہمیں آئی ایم ایف سے قسط مل جاتی ہے تو چھ مہینے بعد کیا ہو گا؟ سال بعد کیا ہو گا؟ ہم پھر اسی مقام پر کھڑے ہوں گے۔مصطفیٰ نواز کہتے ہیں کہ ماضی سے اب تک تو سبق نہیں سیکھا گیا۔ یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں وہ مجھ سے پہلے بہت سے سیاستدان کئی دہائیوں سے کرتے آ رہے ہیں لیکن ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہم ہر دہائی میں ایسی مثالیں اپنی تاریخ میں شامل کرتے رہے جس پر آج شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں۔انھوں نے کہا کہ سانحہ مشرقی پاکستان ہو گیا، پھر ملک میں مارشل لا کا لگنا، سیاستدانوں کو جلا وطن کر دینا، اب تو ریکارڈ پر تمام چیزیں آ چکی ہیں کہ کیسے عدلیہ کو استعمال کیا گیا۔ اسی طرح آج کے دور میں بھی سیاسی انجنیئرنگ کے لیے عدلیہ استعمال ہوئی۔ تو ہم نے کسی دور میں سبق نہیں سیکھا۔

Related Articles

Back to top button