پرویزرشید اپنی نازیبا ویڈیوکی تردید کیوں نہیں کررہے؟


تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کی جانب سے اپنی نازیبا ویڈیو کو اصلی قرار دے کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹانے کے بر عکس سابق سینیٹر پرویز رشید نے اپنی نازیبا ویڈیو پر چپ سادھ رکھی ہے جسے انکے مخالفین اعتراف جرم کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی میں نون لیگ کے رہنما محمد زبیر کی اصلی ویڈیوز بھی سامنے آئیں تو انھوں نے ان کو جعلی قرار دے دیا جبکہ پرویز رشید کی ویڈیو مشکوک قرار دیے جانے کے باوجود وہ خود اس بارے خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں جو کہ ان کے ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھا رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے اپنی ویڈیو کو اصلی قرار دیتے ہوئے پریس کانفرنس کر ڈالی جس کے بعد وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی عدالت میں پہنچ گئے تاکہ ویڈیو ریلیز کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ دوسری جانب ایف آئی اے نے سواتی کی ویڈیو کا فرانزک کروانے کے بعد اسے جعلی قرار دے دیا حالانکہ اعظم سواتی نے ابھی تک اس ویڈیو کے حوالے سے ایف آئی اے سے رجوع نہیں کیا۔ یاد رہے کہ پاکستانی سیاست میں حالیہ عرصے کے دوران کئی اہم سیاسی شخصیات کی آڈیوز اور ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔ ماضی کے برعکس اعظم سواتی کا معاملہ مختلف اس طرح سے ہے کہ ایک سینیٹر کی خفیہ کیمروں کی مدد سے نجی زندگی کی ویڈیو بنا کر اسے سامنے لایا گیا ہے۔اس سے قبل وزیرِاعظم شہباز شریف اور عمران خان کی وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو پر مبنی متعدد آڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔ یعنی اب سیاستدانوں کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں رہی۔

مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے تحریکِ انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ پیش آئے واقعے کو خطرناک اور قابلِ تشویش قرار دیا ہے۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے معاملے کی تحقیقات کے لیے 14 رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا پہلا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے۔ لیکن اعظم سواتی کے دعوؤں کے حوالے سے کچھ سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ انہوں نے اب تک جن تین مقامات پر اپنی ویڈیو بنائے جانے کے خدشے کا اظہار کیا ہے ان تینوں جگہوں سے تردید آگئی ہے کہ سواتی نے وہاں کبھی قیام نہیں کیا۔

اعظم سواتی نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ویڈیو سپریم کورٹ جوڈیشل لاجز کوئٹہ میں ان کے قیام کے دوران بنائی گئی تھی جہاں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ٹھہرے تھے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔سپریم کورٹ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ جوڈیشل لاجز میں صرف موجودہ اور ریٹائرڈ ججز قیام کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے اعلامیے میں اسپیشل برانچ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اعظم سواتی نے اپنے کوئٹہ کے دورے کے دوران بلوچستان جوڈیشل اکیڈمی (جوڈیشل کمپلیکس کوئٹہ) میں قیام کیا تھا جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے زیر انتظام نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب جوڈیشل اکیڈمی نے بھی اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ اسپیشل برانچ کی رپورٹ درست نہیں کیوں کہ جوڈیشل اکیڈمی تعلیمی مقاصد کے لیے ہے اور یہاں رہائش کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔

دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم سیل کے سابق سربراہ سجاد مصطفیٰ باجوہ کہتے ہیں کہ اگر اعظم سواتی سمجھتے ہیں کہ انکی ویڈیو اصلی ہے تو ایف آئی اے کو درخواست دیں تاکہ اس کا فرانزک کر لیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایف آئی اے سافٹ ویئر کی مدد سے ویڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کی رپورٹ دیتا ہے اور اگر ویڈیو اصل ہے تو اس کے بعد مزید کارروائی ہوسکے گی کہ یہ ویڈیو کہاں بنی اور اسے بنانے میں کون ملوث ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل تھی وہ فیک ہے اور ایف آئی اے اس کو جعلی قرار دے چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اعظم سواتی نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ شاید ایف آئی اے نے جس ویڈیو کا فرانزک کیا ہے وہ کوئی اور ہے لہذا سواتی کو چاہیے کہ وہ اپنے پاس موجود ویڈیو کو ایف آئی اے کے حوالے کریں تاکہ اس کا بھی فرانزک کیا جائے۔

واضح رہے کہ سینیٹر اعظم سواتی نے 5 نومبر کو پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ اُنکی بیٹی کو نامعلوم نمبر سے اُنکی اور انکی اہلیہ کی ذاتی ویڈیو بھیجی گئی۔ تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اعظم سواتی کی ویڈیو کو جعلی قرار دیا ہے۔

سجاد مصطفی کا کہنا ہے کہ آج کل جعلی ویڈیو بنانا یا ویڈیو میں تبدیلی کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور یہ تمام کام سافٹ ویئرز کے ذریعے باآسانی کیے جا سکتے ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے پاس اس قسم کی ہزاروں درخواستیں جمع ہوتی ہیں جس میں جعلی ویڈیو یا تصاویر کی شکایت کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سینیٹر اعظم سواتی کی مبینہ ویڈِیو اصلی ہے تو انہیں معلوم ہو گا کہ یہ کہاں بنائی گئی ہے۔ جب ان سے پرویز رشید کی ویڈیو پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ بھی جعلی لگتی ہے لیکن انہیں اب تک اس حوالے سے تحقیقات کے لیے کسی جانب سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

Related Articles

Back to top button