پرویز الہٰی کی پنجاب حکومت کون گرانا چاہتا ہے؟

خبریں گرم ہیں کہ چوہدری پرویزالہٰی کی پنجاب حکومت قاف لیگ اور تحریک انصاف کی صفوں میں گہرے اختلافات پیدا ہو جانے کی وجہ سے شدید خطرات سے دوچار ہو گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی کابینہ میں وعدے کے باوجود وزارتیں حاصل نہ کرسکنے والے قاف لیگ اور پی ٹی آئی کے اراکین پنجاب اسمبلی نے چوہدری پرویزالہٰی اور مونس الہٰی سے اظہار ناراضی کرتے ہوئے ہوئے حکومت چھوڑنے کی دھمکی دے دی ہے۔ یاد رہے کہ پرویز الہٰی کی حکومت چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہے اور اگر حکومتی اتحاد کے آٹھ دس لوگ بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں تو پرویزالٰہی کا اقتدار گل ہو جائے گا۔
حالانکہ پرویز الہٰی کے قریبی ذرائع نے پنجاب حکومت کو لاحق خطرات کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے لیکن دوسری جانب ایسی اطلاعات ہیں کہ اگر وزیر اعلی پنجاب قاف لیگ کے ناراض اراکین اسمبلی کو منا بھی لیتے ہیں تو تحریک انصاف کے درجنوں اراکین اسمبلی ایک فاورڈ بلاک بنانے پر تلے بیٹھے ہیں جس کا اعلان جلد ہی متوقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہی کو وزیر اعلی بنوانے والے قاف لیگ کے اراکین اسمبلی میں سے کسی کو بھی صوبائی وزارت نہیں مل پائی کیونکہ عمران خان نے پرویز کو وزارت اعلی دینے کے بعد یہ واضح کر دیا تھا کہ ان کی جماعت کا اقتدار کا کوٹہ پورا ہو گیا ہے۔ ایسے میں شجاعت حسین کی حکم عدولی کرتے ہوئے حمزہ شہباز کی بجائے پرویز کو وزارت اعلیٰ کا ووٹ دینے والے قاف لیگی اراکین اسمبلی سوال کرتے ہیں کہ انہیں کتنے نفلوں کا ثواب ہوا۔
دوسری جانب پرویز الہٰی کے ساتھیوں کو صوبائی کابینہ میں شامل نہ کرکے انکی حکومت کو خطرات سے دوچار کرنے والے عمران عوامی جلسوں میں یہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ انکی پنجاب حکومت کو گرانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ چشتیاں میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران نے الزام عائد کیا کہ پنجاب میں ہماری جماعت کے اراکین کو خریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے، دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ عمران کا کہنا تھا کہ یہ سب اسلیے کیا جا رہا ہے تاکہ نواز شریف کو پاکستان واپس لایا جا سکے۔ پنجاب میں اس وقت پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے لیڈر پرویز الہٰی وزیراعلیٰ ہیں اور پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہے۔ اس اتحاد میں ق لیگ کی محض دس نشستیں ہیں۔ تاہم ان دس نشستوں ہی کی وجہ سے پی ٹی آئی کے لیے اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنا اور حکومت سازی کرنا ممکن ہو پایا تھا۔ حکومتی اتحاد کی کل نشسوں کی تعداد 188 ہے جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی کل نشستیں 179 ہیں۔
تاہم یاد رہے کہ موجودہ حکومت کو گرانے کے لیے کسی قسم کی عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں اگر کوئی بھی رکن اسمبلی پارٹی سربراہ کی ہدایات کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ اور پارٹی سربراہ کی ہدایات سے انحراف کرنے والے رکن اسمبلی کی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔ ایسی صورت حال میں سوال یہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کو بقول عمران خان ’رشوت یا دھمکی‘ کے ذریعے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
پنجاب حکومت کے مشیر اطلاعات عمر سرفراز چیمہ کے مطابق ان کی جماعت کے اراکین سے رابطے کیے گئے ہیں تا کہ انہیں توڑا جا سکے۔لیکن اسکے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا دیا کہ پہلے جس طرح 25 اراکین کو پیسے سے خریدا گیا، وہ منحرف ہوئے، اپنی سیٹیں کھو بیٹھے اور پھر الیکشن میں بُری طرح شکست کھا گئے، اس کے بعد کوئی دوبارہ ایسی کوشش نہیں کرے گا۔ دوسری جانب پرویز الہٰی کی سیاسی مشیر ثمینہ خاور نے بات کرتے ہوئے پی ڈی ایم اور ن لیگ ہی کو پنجاب حکومت گرانے کی کوشش کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عمران بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ن لیگ اور پی ڈی ایم بالکل پنجاب حکومت کو گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی انھی جماعتوں نے ’غیر آئینی طریقوں سے‘ چوہدری پرویز الٰہی کے وزیرِاعلٰی بننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں۔ ثمینہ خاور نے دعویٰ کیا کہ اُن کی اپنی جماعت یعنی ق لیگ ہی کے ممبرانِ اسمبلی سے رابطہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
تاہم اصل سوال پھر وہی ہے کہ حکومت کس طرح ختم کی جا سکتی ہے؟ آئین کی شق 63 کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کسی جماعت کے رکنِ اسمبلی کے لیے پارٹی سربراہ کی ہدایات کے خلاف کھلے عام ووٹ دینا لگ بھگ ناممکن ہو گیا ہے۔ اس طرح موجودہ حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ختم کرنا مشکل ہو گا کیونکہ اس میں اوپن بیلٹ کے طریقے کے ذریعے رائے شماری ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں موجودہ پارٹی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے گرانا ممکن نظر نہیں آتا۔لیکن پنجاب حکومت کے مشیرِ اطلاعات عمر سرفراز چیمہ کے خیال میں ’گورنر کے ذریعے وزیرِاعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جا سکتا ہے۔‘
اس میں ان کے لیے خطرہ یہ ہے کہ اس سے قبل اگر کچھ اراکین اسمبلی وفاداری تبدیل کر لیتے ہیں تو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے وزیرِاعلیٰ کے پاس عددی برتری نہیں رہے گی۔ تاہم عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسے کسی غیر آئینی طریقے سے پنجاب حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی تو ہم بھی اس کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔‘
سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت کو حزبِ اختلاف اپنے ساتھ آنے پر آمادہ کر لے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی واحد اتحادی جماعت ق لیگ ہے۔ صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت کو خطرہ ق لیگ ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ انکے مطابق سوال یہ ہے کہ کیا ق لیگ کے نو اراکین چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ ان کے کچھ لوگ پہلے ہی خوش نہیں ہیں کیونکہ ان کو نہ تو وزارتیں ملی ہیں اور نہ ہی ترقیاتی فنڈز ویسے ملے جیسے وہ توقع کر رہے تھے۔
سلمان غنی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پہلے ہی چوہدری شجاعت حسین کو ق لیگ کا سربراہ قرار دے چکا ہے اور وہ اس وقت پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بظاہر جس قسم کا سیاسی ماحول اس وقت بن چکا ہے اس پر چوہدری شجاعت حسین پی ٹی آئی اور عمران خان کا ساتھ دینے پر چوہدری پرویز الہٰی سے خوش نہیں ہیں۔
سینئر صحافی خالد قیوم کے مطابق اس مرتبہ ن لیگ کی طرف سے وزیرِاعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز شریف نہیں ہوں گے بلکہ ن لیگ ہی کے اندر سے کوئی دوسرا رہنما ہو گا۔ لیکن مسلم لیگ ن کے ممبر پنجاب اسمبلی خلیل طاہر سندھو نے اس تاثر کی تردید کی کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش کے پیچھے اُن کی جماعت کا ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پرویز الہٰی کی حکومت گرے گی تو اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں، پہلی یہ کہ قاف لیگی اراکین اسمبلی ان کا ساتھ چھوڑ دیں اور دوسری یہ کہ تحریک انصاف کے اندر ایک فارورڈ بلاک بن جائے۔

Related Articles

Back to top button