پرویز مشرف کشمیر کا سودا کرنے پر کیوں تیار ہوئے؟

سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نہ صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان سردمہری کے تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ایک نیا باب شروع کرنے کے حامی تھے بلکہ انڈیا سے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے پرویز مشرف 2006 میں چار نکاتی منصوبے کے تحت کشمیر پر بھی سرنڈر کرنے کیلئے تیار تھے تاہم یہ شدید تحفظات کی وجہ سے منصوبہ عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔

تاہم بھارتی حکام مشرف کو سنہ 1999 میں کارگل کے تنازع کا معمار سمھتے تھے اور انھیں شبہ تھا کہ 1999 میں انڈین ایئر لائنز کے طیارے کے اغوا میں جنرل مشرف اور ان کی فوج کا ہاتھ تھا۔ اکتوبر 1999 میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی بغاوت اور نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار پر قبضے نے بھیانڈیا کو چوکنا کر دیا تھا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف نے اپنی یادداشتوں میں بتایا تھا کہ انھیں سنہ 2001 کے اوائل میں انڈین ریاست گجرات میں آنے والے زلزلے کے بعد ’برف پگھلانے کا موقع‘ ملا۔دہلی میں پیدا ہونے والے جنرل مشرف نے اس وقت کے انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو تعزیت کے لیے ٹیلی فون کیا اور ادویات سمیت امداد بھیجی۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس سے برف پگھل گئی تھی اور انڈیا کے دورے کے لیے ملاقات کی دعوت بھی ملی۔

دوسری طرف اپنی یادداشتوں میں سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری ان واقعات کا تھوڑا سا مختلف احوال بیان کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’دل کی تبدیلی‘ میں واجپائی کے نائب ایل کے ایڈوانی نے مشرف کو مدعو کرنے کا خیال پیش کیا اور ان کا خیال تھا کہ انڈین وزیر اعظم کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

شمالی شہر آگرہ میں واجپائی اور مشرف کے درمیان جولائی 2002 میں دو روزہ سربراہی ملاقات میں بڑا ڈرامہ ہوا۔ دونوں رہنماؤں اور ان کے وزرائے خارجہ کے درمیان طویل ملاقاتوں کے نتیجے میں مشترکہ معاہدے پر پہنچنے کے لیے دو کوششیں ہوئیں۔ اس سے مشرف کو مزید غصہ آ گیا اور وہ غصے میں اٹھ کر چلے گئے۔

مشرف نے بتایا کہ وہ آگرہ سے روانہ ہونے سے قبل رات گئے واجپائی سے ملاقات کرنے گئے تھے۔انھوں نے کہا کہ ’میں نے انھیں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ لگتا ہے ہم دونوں سے اوپر کوئی ہے جو ہم پر غالب آنے کی طاقت رکھتا ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ ہم دونوں کی تذلیل ہوئی۔

مشرف کی یادداشت کے مطابق ’واجپائی بے ساختہ وہیں بیٹھے رہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے چلا گیا، پرویز مشرف کا خیال تھا کہ واجپائی ’اس لمحے کو سمجھنے میں ناکام رہے اور تاریخی موقع ضائع کر بیٹھے۔‘انڈیا نے اس کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار مشرف کو قرار دیا۔

واجپائی کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ مشرف نے واجپائی کے ساتھ اپنی اہم ملاقات کی صبح انڈین صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی ناشتے کی میٹنگ کر کے ماحول سازگار نہیں رہنے دیا تھا۔ کچھ شرکا نے آف دی ریکارڈ کی جانے والی اس گفتگو کو ریکارڈ کیا تھا اور یوں یہ ویڈیوز انڈین میڈیا تک پہنچ گئیں۔اس ملاقات میں شریک ایک ایڈیٹر نے کہا کہ ’ایک نجی میٹنگ کو عوامی تماشے میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔‘

جسونت سنگھ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ مشرف نے بہت کھل کر بات کر دی تھی۔ انھوں نے کہا کہ مشرف کارگل کے ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات کو سمجھنے سے عاری تھے جبکہ اس طرح کے ماحول میں واجپائی ایک ’نئی شروعات‘ کی پیشکش کر رہے تھے۔جسونت سنگھ نے لکھا کہ اجلاس میں مشرف نے وضاحت کی کہ وہ کس طرح مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے ہیں اور کہا کہ ’پاکستان کی طرف سے کوئی دہشتگردی نہیں ہوئی۔‘ انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا تھا کہ مشرف ’کسی بھی طرح‘ کسی معاہدے تک پہنچنے کی جلدی میں تھے۔جسونت سنگھ کے مطابق ’جب معاہدے کا مسودہ واجپائی اور ان کی کابینہ کو دکھایا گیا تو ان کا اجتماعی نقطہ نظر یہ تھا کہ اس میں ’دہشت گردی کے مسئلے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔

واجپائی سے دوران ملاقات مشرف کے اٹھ کر چلے جانے پر انڈین رہنماؤں کا مؤقف پاکستانی رہنما سے مختلف ہے۔ جسونت سنگھ کے مطابق انھیں انڈیا کے وزیراعظم واجپائی نے بتایا تھا کہ ملاقات میں مشرف بولتے گئے اور میں چپ بیٹھا سنتا رہا۔جسونت سنگھ کے مطابق آگرہ سمٹ کا سب سے بڑا سبق یہی تھا کہ تشہیر کے ذریعے دونوں مخالف ممالک کے درمیان مذاکرات کا طریقہ درست نہیں۔انھوں نے لکھا کہ ’اس طرح کی سفارتی ملاقاتیں فوجی طور طریقوں سے مختلف ہوتی ہیں۔

لیکن اسی سال کے بعد مشرف نے لکھا کہ انھوں نے نیپال میں ایک علاقائی سربراہی اجلاس میں واجپائی کو حیران کر دیا جب وہ میز کے سامنے گئے اور واجپائی کی طرف مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ان کے مطابق واجپائی کے پاس کھڑے ہونے اور مصافحہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘ان کا خیال تھا کہ ’مصافحہ کا مطلوبہ اثر ہوا۔

واجپائی نے جنوری 2004 میں ایک سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا اور فریقین نے امن عمل کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تاہم واجپائی کی پارٹی اس سال ہونے والے انتخابات میں شکست کھا گئی۔ستمبر میں مشرف نے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے موقع پر نیویارک میں نئے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کی۔ سنہ 2005 میں وہ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے انڈیا آئے تھے اور دونوں رہنماؤں نے امن عمل کو آگے بڑھانے اور مسائل کا ’آؤٹ آف باکس‘ حل تلاش کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

متعدد ماہرین نے انڈیا کے ساتھ ڈیڈلاک ختم کرنے کے لیے مشرف کے سنہ 2006 کے کشمیر پر چار نکاتی منصوبے کو قابل عمل قرار دیا۔اس مسقبل کے منصوبے میں پاکستان کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پر اپنے دعوے سے پیچھے ہٹنا شامل تھا۔ اس میں شرط یہ تھی کہ یہ ایسی صورت میں ہو گا جب دونوں خطوں یعنی پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی ہو گی۔ماہرین کے مطابق یہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان امن کے لیے ممکنہ طور پر بہترین حل تھا تاہم پرویز مشرف کے بارے میں انڈیا میں رائے ہمیشہ تقسیم رہی۔

Related Articles

Back to top button