پچھلے ڈی جی سی عمران کیلئے کیا کچھ کرتے رہے ہیں؟


سینئر صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ عمران خان کو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل “سی” کی اہمیت کا سب سے زیادہ اندازہ اس لیے ہے کہ ان کی اپنی جماعت کو بھی اس عہدے پر بیٹھنے والوں نے ہی باری باری پال پوس کر جوان کیا تھا۔ یاد رہے کہ دھاندلی زدہ الیکشن 2018 کے وقت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ڈی جی “سی” تعینات تھے اور عمران نے برسر اقتدار آنے کے فوری بعد فیض حمید کو لیفٹیننٹ جنرل عاصم نصیر کی جگہ نیا آئی ایس آئی چیف بنا دیا تھا۔ سینئر صحافی عمر چیمہ کے ساتھ اپنے یوٹیوب چینل پر ایک وی لاگ میں اعزاز سید نے عمران کی جانب سے موجودہ ڈی جی “سی” میجر جنرل فیصل نصیر پر لگائے گئے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فیض حمید نے بطور ڈی جی سی ہی 2018 میں خان صاحب کے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کیا تھا اور وہ اب تک ان سے اپنا تعلق نبھا رہے ہیں۔ اعزاز نے کہا کہ فیض حمید کے علاوہ ایک اور کردار جو کہ ڈی جی آئی ایس آئی لگنے سے پہلے ڈی جی “سی” رہ چکا ہے اس کا نام لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام ہے۔ وہ بھی آج کل تحریک انصاف سے وابستہ ہیں اور عمران خان کے سیاسی گرو کہلانے والے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کے کافی قریب ہیں۔ اعزاز سید کہتے ہیں کہ ایسے میں عمران کو بہت اچھی طرح اندازہ ہے کہ ڈی جی “سی” کتنا اہم ہوتا ہے، لہٰذا وہ مسلسل انہیں دباؤ میں لانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

سینئر صحافی نے دعویٰ کیا کہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا نے ہی عمران کی شکل میں ایک ہیرا ڈھونڈا تھا تاکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے جان چھڑائی جا سکے۔ چنانچہ نواز شریف کے پچھلے دور حکومت میں پاشا نے پراجیکٹ عمران خان تب کے ڈی جی “سی” ظہیر الاسلام کے حوالے کر دیا تھا جس نے موصوف کے لئے اگلا سیاسی منظرنامہ ترتیب دیا اور الیکشن 2018 میں ظہیر الاسلام کے بعد نئے ڈی جی “سی” بننے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے اس پراجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے عمران خان کو وزیر اعظم بنوا دیا۔ اسی لیے عمران خان اپنے محسن فیض حمید کو نیا آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔

اعزاز سید نے کہا کہ الیکشن 2018 میں بطور ڈی جی “سی” لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا کردار سب جانتے ہیں اور اسی لئے نواز شریف ماضی میں انہیں سیاسی انجینئرنگ اور دھاندلی کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی فیض حمید کا سیاسی کردار بے نقاب کرنے کی جسارت کی تھی جس کی پاداش میں انہیں جسٹس ثاقب نثار نے برخاست کر دیا تھا۔ اپنی برخاستگی کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرتے ہوئے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی نے دعویٰ کیا تھا کہ تب کے ڈی جی “سی” فیض حمید نے ان سے ملاقات کر کے کہا تھا کہ اگر آپ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت لیں گے تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ جب انہوں نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں فیض حمید کی یہ گفتگو پبلک کی تو انہیں بطور جج فارغ کر دیا گیا تھا۔

بعد ازاں اسی فیض حمید کو وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا حالانکہ عاصم منیر کو اس عہدے پر تعینات ہوئے صرف آٹھ ماہ ہوئے تھے۔ اس کے بعد فیض حمید کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی انکے عہدے کی معیاد پوری ہونے کے باوجود وہیں برقرار رکھنے کے لیے عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پنگا ڈال لیا اور لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی تعیناتی کو دو مہینے روکے رکھا۔ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد عمران نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ فیض حمید کو اس لیے برقرار رکھنا چاہتے تھے کیونکہ اپوزیشن ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانا چاہتی تھی اور عمران فیض حمید کے ذریعے اس عدم اعتماد کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔ جنرل قمر باجوہ نے ندیم احمد انجم کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ بناتے ہوئے فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور بنا دیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ حکومت کے خلاف عمران کی حمایت کرتے رہے، چنانچہ انہیں ایک مرتبہ پھر پشاور سے نکال کر کور کمانڈر بہاولپور بنا دیا گیا۔ انہی وجوہات کی بنا پر فیض حمید پاکستانی سیاسی تاریخ کے متنازعہ ترین آئی ایس آئی سربراہ کہلاتے ہیں اور نئے آرمی چیف کی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔

Related Articles

Back to top button