‘چلو چلو IMF چلو’ پالیسی نے پاکستان کوکیسے برباد کیا؟


سال 1958 سے سال 2022 تک پاکستانی حکومتوں نے ہمیشہ ‘چلو چلو آئی ایم ایف چلو’ کا نعرہ لگایا جسکے نتیجے میں پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے مابین اب تک قرض لینے کے 22 معاہدے ہو چکے ہیں۔ 1988 کے بعد سے تو پاکستان بری طرح آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس چکا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسے زور زبردستی سے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ آئی ایم ایف امریکہ کے زیر اثر ہے اس لیے وہاں سے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ پاکستان کو ‘ پل اینڈ پش فیکٹر’ کے ذریعے آئی ایم ایف کے پروگرام کی طرف دھکیلا جائے تاکہ سیاسی مطالبات منوانے میں آسانی ہو۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر جانے والی حکومت نے آنے والی حکومت کے لیے معاشی حالات اتنے برے چھوڑے کہ نئے حکمران کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں بچا۔ کچھ ایسا ہی شہباز شریف حکومت کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

شہباز شریف حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 2019 میں عمران حکومت کی جانب سے طے پانے والے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف شرائط کے تحت پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، بجلی کے نرخ بڑھانے، اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے اور انڈسٹری پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور کچھ دوسری شرائط پر عمل کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اس پروگرام کے تحت چھ ارب ڈالر میں سے تین ارب ڈالرز پاکستان کو مل چکے ہیں جب کہ باقی تین ارب ڈالرز کے لیے موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پر امید ہیں کہ جلد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف سے یہ پہلا پروگرام نہیں اور نہ ہی پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں پہلی بار داخل ہوا ہے۔ پاکستان کی آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے میں ملک کے ماہرین معیشت اور ان پروگراموں کے دوران حکومتوں میں رہنے والے افراد نے پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف پروگراموں کے اثرات کے متعلق مختلف رد عمل دیا ہے۔ کچھ کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کے مالی نظم و ضبط کے لیے تھے تو دوسروں نے ان پروگراموں سے ملک پر قرض کے بوجھ میں اضافے اور غربت میں اضافے کے بارے میں نشاندہی کی ہے۔

پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 22 پروگرام ہو چکے ہیں۔ پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے پایا۔ اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور آخری اور موجودہ پروگرام کے معاہدے پر جولائی 2019 میں دستخط ہوئے جس کے تحت پاکستان کو چھ ارب ڈالر ملنے تھے جس میں سے تین ارب ڈالر مل چکے ہیں اور باقی تین ارب ڈالر کے لیے موجودہ حکومت کے عالمی ادارے سے مذاکرات جاری ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی تاریخ کے مطابق فوجی صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے تین پروگرام ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں بننے والی پہلی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے چار پروگرام ہوئے۔ فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شرکت کی۔ پی پی پی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شامل ہوا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں ہم نے ایک آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت اختیار کی۔ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے تین پروگراموں میں شامل ہوا۔ نواز شریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں پاکستان نے دو آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت اختیار کی۔پرویز مشرف کے دور میں دو آئی ایم ایف پروگرام ہوئے، پی پی پی کے 2008 سے 2013 کے دور حکومت میں ایک پروگرام ہوا، مسلم لیگ نواز کی 2013 سے 2018 کی حکومت میں بھی ایک پروگرام ہوا اور تحریک انصاف کے دور میں پاکستان ایک آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہوا جو عمران حکومت کے خاتمے کے بعد نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے جاری رکھا ہوا ہے لیکن تمام تر شرائط ماننے کے باوجود ابھی تک اسے قرضے کی دوسری قسط نہیں مل سکی۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق 80 کی دہائی کے بعد آئی ایم ایف پروگرام نے پاکستان میں تین چیزوں پر زور دیا۔ ان میں نجکاری، ڈی ریگولیشن اور فری مارکیٹ کے تصور کو فروغ دینا ہے۔ آئی ایم ایف امریکہ کے زیر اثر ادارہ ہے اس لیے اس کا معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی ایجنڈا بھی ہوتا ہے اور وہ پاکستان میں آئی ایم ایف پروگراموں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پاکستان کے سابق مشیر خزانہ اور ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرنے والے ڈاکٹر سلمان شاہ نے اس بسرے بتایا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ اسے بیلنس آف پیمنٹ یعنی ادائیگیوں میں عدم توازن کے بحران کا سامنا ہے۔ انھوں نے کہا جب بھی ملکی درآمدات زیادہ ہوئیں تو ملک کو بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ درپیش ہو جاتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ انھوں نے کہا اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پاس بار بار گیا تو اس پر آئی ایم ایف کو الزا م نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بحران کا سامنا ہمیں تھا جسکے حل کے لیے ہمیں ان کے پاس جانا پڑا۔
ڈاکٹر سلمان شاہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہم میکرو لیول پر تو اصلاحات کر لیتے ہیں لیکن مائیکرو لیول پر یہ اصلاحات نہیں ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف نے اصلاحات کا کہا تو ہمیں کرنی چاہیے تھی جن میں معیشت کو ایکسپورٹ والی معیشت کے ساتھ صنعتی شعبے کو زیادہ ترقی، زراعت میں ترقی اور ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کرنا تھا جو ہم نے نہیں کیں۔

معروف ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن نے آئی ایم ایف پروگراموں کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پروگرام جس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں انکی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں اور غربت میں بھی اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف پروگراموں کی وجہ سے ملک میں صنعتی ترقی بھی رک گئی کیونکہ آئی ایم ایف ایکسچینج ریٹ کو کم رکھنے اور شرح سود میں اضافے کا مطالبہ کرتا ہے۔ان شرائط کی وجہ سے صعنت کے لیے قرضہ مہنگا ہوتا ہے اور صنعتی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے عام فرد متاثر ہوتا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارہ کرنسی کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کے خلاف ہے۔ انھوں نے کہا جب کرنسی کی قدر گرتی ہے تو اس سے مہنگائی بڑھتی ہے، لہذا آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ مہنگائی ایک لازمی جزو ہے۔

Related Articles

Back to top button