چوہدری نثار علی کی تاریخ دانی اتنی کمزور کیوں یے؟

ہر مشکل وقت میں اپنی پارٹی قیادت کو دھوکہ دے کر دائیں بائیں ہو جانے والے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مسلم لیگ نون سے فارغ ہو جانے کے بعد اب اپنے بیٹے سمیت اگلے عام انتخابات میں بطور آزاد امیدوار میدان میں اترنے کا فیصلہ تو کر لیا ہے لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کو ان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اب نہ تو گھر کے رہے ہیں اور نہ ہی گھاٹ کے کیونکہ نہ تو کوئی مضبوط سیاسی جماعت انکے ساتھ ہے اور نہ ہی اب انہیں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل ہے۔

معروف لکھاری اور تجزیہ نگار وجاہت مسعود نے اپنی تازہ تحریر میں بتایا ہے کہ چوہدری نثار علی خان ہماری سیاسی تاریخ کا ایک عجیب کردار ہیں۔ ایچی سن کالج سے تعلیم پانے والے 68 سالہ چوہدری نثار 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار قومی اسمبلی پہنچے۔ مئی 2018 تک مسلسل آٹھ بار قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ کم از کم پانچ مرتبہ وفاقی وزیر رہے۔ جولائی 2018 کے انتخاب میں قومی نشست پر شکست کھائی لیکن صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے کے باوجود 26 مئی 2021 تک پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے سے گریزاں رہے۔ چوہدری نثار کی سیاست قومی معاملات پر کسی متعین نقطہ نظر کی محتاج نہیں۔

وجاہت مسعود بتاتے ہیں کہ جمہوری نصب العین سے وابستگی یا آمرانہ رجحانات کی مزاحمت چوہدری نثار کی وجہ شہرت نہیں۔ اپنے حلقے سے باہر عوامی مقبولیت کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ طبعاً غیر دستوری مداخلت کے نادیدہ سرچشموں سے تعلق کے لئے جانے جاتے ہیں۔ وہ ذاتی طور پر کم آمیز، خود پسند اور جاہ پرست سمجھے جاتے ہیں، اور بند کمرے میں جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر ہیں۔ بیک وقت شہباز شریف اور عمران خان سے دوستی کا دعویٰ چوہدری نثار کی سیاسی شعبدہ بازی کا ثبوت ہے۔ اکتوبر 1998 میں پرویز مشرف کی بطور آرمی چیف تقرری میں چوہدری نثار کو خاصا دخل تھا۔ 1992 میں ایم کیو ایم کے خلاف ملٹری آپریشن ہو یا نومبر 2013 میں حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں موت، چوہدری صاحب کی رقیق القلبی موقع شناس ہے۔ 2017 کے موسم گرما میں نواز حکومت پر کڑا وقت آیا تو چوہدری نثار نے ہر شام پریس کانفرنس کے نام پر رونمائی شعار کر لی۔ گھنٹوں ٹیلی ویژن اسکرین پر درشن دیتے تھے۔ اس مشق کا مدعا کچھ ایسا پوشیدہ نہیں تھا لیکن جولائی 2018 کے بعد چوہدری نثار ٹھیک اسی طرح گوشہ نشین ہو گئے جیسے اکتوبر 1999 میں نظر بند ہوئے تھے۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ حالیہ ہفتوں میں چوہدری نثار علی نے پھر سے پھریری لی ہے۔ اخبارات میں ایک آدھ سیاسی بیان کے بعد ایک معروف اینکر پرسن کے پروگرام میں نمودار ہوئے۔ چوہدری صاحب کے اس انٹرویو کے کچھ نکات البتہ دلچسپ رہے۔ ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن Truth and Reconciliation Commission کے بارے میں سوال کو چوہدری صاحب نے ادائے بے نیازی سے یہ کہتے ہوئے مسترد کیا کہ اس ملک میں کئی کمیشن بنے اور بے نتیجہ رہے۔ کمیشن بنانا اہم نہیں، اس پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ ان کے اس موقف سے معلوم یہ ہوا کہ ہمارے سابق وزیر داخلہ جوڈیشل کمیشن اور ٹروتھ اینڈ ر ی کنسیلی ایشن کمیشن کا فرق ہی نہیں سمجھتے۔ جوڈیشل کمیشن تو کسی خاص واقعے کی تحقیقات کے لئےقائم ہوتا ہے۔ جیسے لیاقت علی خان یا بینظیر بھٹو کی شہادت۔ لیکن ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب کوئی قوم اپنی سیاسی تاریخ میں کسی اجتماعی نا انصافی کا طویل مدت شکار رہی ہو اور اس دوران فریقین کی جانب سے ناانصافی، استحصال اور پرتشدد جرائم سے تائب ہو کر تاریخ کے اگلے مرحلے میں داخل ہونا چاہتی ہو۔ مثلاً جنوبی افریقہ میں دہائیوں تک نسل پرست پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ اس دوران حکومتی استبداد اور اس کی مزاحمت میں دونوں طرف سے ان گنت نا انصافیاں ہوئیں۔

وجاہت مسعود بتاتے ہیں کہ جب نیلسن منڈیلا اقتدار میں آئے تو ان کا مقصد اپنے ملک کو اس بدنما تاریخی تجربے کی باقیات سے نجات دلانا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن قائم کیا تاکہ ماضی کی نا انصافیوں کو تسلیم کر کے قومی مفاہمت کا راستہ ہموار ہو سکے۔ ہم اگر خوش نصیب ہوتے تو مارچ 1969 میں ایسا قومی کمیشن بننا چاہئے تھا جو 1952 کے بنگلہ بھاشا اندولن، جگتو فرنٹ حکومت کی معزولی، ون یونٹ اور مشرقی پاکستان کے معاشی استحصال جیسی نا انصافیاں تسلیم کر کے قومی مفاہمت کی بنیاد رکھ سکتا۔ ایسا ہوتا تو 1971 کی قومی ہزیمت سے بچا جا سکتا تھا۔

وجاہت مسعود یاد دلاتے ہیں کہ ٹھیک دو ماہ قبل فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے اعتراف کیا کہ پاکستان کی فوج ستر برس سے ملک کی سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے۔ گویا قوم کے خلاف دستوری انحراف، جمہوری عمل میں مداخلت، نقصان دہ خارجہ پالیسیوں اور معاشی استحصال جیسے جرائم سرزد ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت آئینی اور قومی ادارے اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔ عوام کا معیار زندگی بری طرح مجروح ہوا ہے۔ ریاست کی عملداری جاتی رہی۔ لہازا سات دہائیوں پر محیط اس تاریخی المیے سے واقعی نجات حاصل کرنے کے لئے ایک ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن قائم ہونا چاہئے۔ جس میں ماضی کی سیاسی اور ریاستی کوتاہیوں کا کھلے عام اعتراف کر کے ایسے جمہوری عہد کا آغاز کیا جا سکے جس کا واحد مقصد قومی معیشت کی ترقی نیز وفاقی اکائیوں، مذہبی گروہوں اور لسانی طبقات میں انصاف کی بنیاد پر ہم آہنگی پیدا کرنا ہو۔ تاہم اس کے لئے چوہدری نثار علی خان جیسے کرداروں کو اپنی تاریخ دانی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

Related Articles

Back to top button