کورکمانڈرز کانفرنس کی پریس ریلیز کیوں جاری نہیں ہوئی؟

باخبر عسکری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے میں توسیع کی افواہیں مکمل طور پر بے بنیاد ہیں اور ان کا واحد مقصد بے یقینی پیدا کرنا ہے حالانکہ فوجی سربراہ بار بار واضح طور پر اپنے اس عزم کا اعادہ کر چکے ہیں کہ وہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو کر گھر چلے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ جنرل قمر باجوہ نے الودعی دورے شروع کر رکھے ہیں اور 29 نومبر کو فوج کے نئے سربراہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے اور اب اس بات میں شک و شبے کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے پشاور کے بعد سیالکوٹ اور منگلا گیریژن کے بھی الودعی دورے کیے ہیں لہٰذا ان کی توسیع کے حوالے سے پھیلنے والی افواہیں بے بنیاد ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 9 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت راولپنڈی میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی واضح طور پر بتایا گیا کہ 29 نومبر کو نیا کمانڈر فوج کی قیادت سنبھالے گا۔ اس سے پہلے یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ حکومت ایک مرتبہ پھر جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے پر غور کر رہی ہے اور لندن میں وزیراعظم شہباز شریف کی اپنے پارٹی سربراہ نواز شریف کے ساتھ ملاقات کا بنیادی ایجنڈا بھی یہی تھا۔ حکومتی ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ نہ تو جنرل باجوہ نے اپنے عہدے میں توسیع کی خواہش کی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی تجویز زیر غور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنیارٹی کی بنیاد پر نئے آرمی چیف کے تقرر کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جس کا اعلان نومبر کے آخری ہفتے میں کیا جائے گا۔ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری ہمیشہ نومبر کے آخری ہفتے میں ہوتی ہے اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو گا۔
یاد رہے کہ حال ہی میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے پہلی مرتبہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے جنرل باجوہ کو اپنی حکومت بچانے کے عوض بطور رشوت تا حیات عہدے پر برقرار رکھنے کی پیشکش کی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے میں جنرل باجوہ کی جانب سے موجودہ حکومت سے بھی توسیع لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اس حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں کا بنیادی مقصد ملک میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 9 نومبر کو راولپنڈی میں ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جان بوجھ کر سرکاری پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی چونکہ وہاں جو فیصلے کیے گئے ان کے اعلان سے زیادہ ان پر عملدرآمد ضروری ہے۔ فوجی قیادت کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی قیادت کی جانب سے فوج، آئی ایس آئی اور اس سے وابستہ اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کا بنیادی مقصد ذاتی مفادات کے حصول کے لیے دباؤ ڈالنا ہے لیکن ایسا کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس عزم کا اعادہ بھی کیا گیا کہ فوج غیر سیاسی ہے اور غیر سیاسی ہی رہے گی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اداروں اور ملکی مفادات کے خلاف سر گرم عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا اور ایسے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ 29 نومبر کو فوجی قیادت کی تبدیلی کے بعد شر پسند عناصر کے ساتھ نمٹنے کے لیے تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اقدامات کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد نئے آرمی چیف کے انتخاب کے لیے ادارہ جاتی عمل پر غور کے علاوہ کور کمانڈرز نے موجودہ سیاسی صورتحال اور تحریک انصاف کے سربراہ کی جانب سے سینئر فوجی افسران پر بے جا تنقید اور الزامات کی سختی سے مذمت کی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ جن فوجی افسران پر بے جا الزامات لگائے جا رہے ہیں، فوج بطور ادارہ ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہو گی اور ان کا دفاع کرے گی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے فوجی ترجمان بھی عمران خان کی جانب سے آئی ایس آئی کے ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس میجر جنرل فیصل نصیر پر لگائے جانے والے الزامات کو سختی سے رد کرتے ہوئے واضح کر چکے ہیں کہ یہ روش برداشت نہیں کی جائے گی اور فوج اپنے افسران کا دفاع کرے گی۔
یاد رہے کہ جی ایچ کیو میں کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہر ماہ ہوتا ہے جہاں اعلیٰ فوجی افسران اندرونی اور بیرونی سلامتی کی صورتحال کے علاوہ پیشہ ورانہ امور پر بھی تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج کی کمان میں آنے والی تبدیلی، فوج ہر لگائے جانے والے الزامات اور ملک میں کشیدہ سیاسی ماحول پر سیر حاصل گفتگو کی گئی اور اہم ترین فیصلے کیے گئے۔ تاہم حالیہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ فوجی ترجمان نے کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد اب تک کوئی باقاعدہ پریس ریلیز جاری نہیں کی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ فیصلے کر لیے گئے ہیں جن کا اعلان کرنے کی بجائے ان پر عمل درآمد ضروری ہے لہذا کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔