کیا اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ مسلم لیگ ن سے ہاتھ کردیا؟

سینئر صحافی اور تجزیہ نگار انصار عباسی نے کہا ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں اب مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت کو دال میں کچھ کالا نظر آنا شروع ہو چکا ہے اور وہ اپنے سیاسی بیانیے پر نظرثانی کرتے ہوئے دوبارہ اپنے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے پرانے بیانیے کی جانب لوٹ سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے آنے والے اشارے ظاہر کر رہے ہیں کہ نواز لیگ کے ساتھ دوبارہ سے واردات پڑ چکی ہے اور اسے وعدے کے مطابق اپنی حکومت کی معیاد پوری نہیں کرنی دی جائے گی۔ اسی لئے اب اکتوبر میں نئے انتخابات کی باتیں کی جارہی ہیں۔
انصار عباسی نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں دعوی کیا ہے کہ متعلقہ حلقوں سے کچھ ’’پریشان کُن‘‘ اشارے ملنے کے بعد نون لیگ کے قائد نواز شریف صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور فوج اور عدلیہ سمیت کچھ اداروں کے حوالے سے سخت موقف اختیار کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف عوام اور میڈیا کے ساتھ اپنی رابطہ کاری دوبارہ شروع کریں اور اپنا بیانیہ دوبارہ سے لوگوں کے سامنے لائیں۔ ایک لیگی رہنما نے انصار عباسی کو بتایا کہ ہمیں حکومت نہیں چاہئے تھی اور ہم رواں سال مئی میں نئے عام انتخابات کے خواہشمند تھے لیکن ہمیں کہا گیا کہ آپ ملک کے بھلے کیلئے کام جاری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں نون لیگ کی زیر قیادت حکومتی اتحاد نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے غیر مقبول اور سخت فیصلے کیے۔ لیکن اب ملک کو نئے الیکشن کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جو حکمران اتحادی جماعتوں بالخصوص نون لیگ کیلئے فائدہ مند نہیں ہے۔
بقول انصار عباسی نواز لیگ کی قیادت جلد انتخابات کے امکان سے خوش نہیں اور مسلم لیگ والے یہ فیصلہ نواز شریف کی واپسی، موزوں حالات کی غیر موجودگی اور تمام سیاسی جماعتوں کیلئے یکساں اصول طے کیے جانے تک قبول نہیں کریں گے۔نون لیگ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت بشمول نواز شریف کو سیاسی بنیادوں پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر مقدمات چلائے گئے۔ اس۔لیے آئندہ انتخابات تک نون لیگ چاہتی ہے کہ عدالتیں نواز شریف کی اپیلوں پر فیصلہ کر لیں تاکہ پارٹی کو انتخابات میں جانے کیلئے منصفانہ موقع مل سکے۔اس سے پہلے نون لیگ کے سابق رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری نے خبردار کیا تھا کہ نواز لیگ کو جلد الیکشن کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مساوی مواقع دیے جانا چاہئیں۔
انصار عباسی کے مطابق مسلم لیگ کی قیادت کا کہنا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور غلط ہو رہا ہے۔ لیگی رہنما اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے بارے میں غلط اندازے نہ لگائے جائیں۔ جس نئی حکمت عملی پر غور کیا جا رہا ہے؛ اگر اسے حتمی شکل دے کر عمل شروع کردیا گیا تو اس کے بعد نون لیگ کسی طرح کا تعاون نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعلی پنجاب معاملے میں فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد ہونے سے پہلے اور بعد حکمران اتحاد نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کیس سننے والے تین رکنی بینچ پر کھل کر تنقید کی اور کہا کہ چند مخصوص ججوں کا ٹولہ اپنی پسند کے فیصلے کر رہا ہے۔ ججز پر سب سے ذیادہ تنقید مریم نواز نے کی اور وہ تین رکنی بینچ سے شدید ناراض نظر آئیں۔ انکا۔کہنا تھا کہ اس تین رکنی بینچ میں موجود ججز ماضی میں مسلم لیگ نون کے خلاف فیصلے دیتے رہے ہیں۔ مریم نے ’’فکسڈ میچز‘‘ کی طرز پر جسٹس بندیال کے تین رکنی بینچ کو ’’فکسڈ بینچ‘‘ قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے کرکٹ میچوں کو فکس کیا جاتا ہے اسی طرح سپریم کورٹ میں بینچوں کو فکس کیا جاتا ہے تاکہ مرضی کے فیصلے لیے جا سکیں۔ انکا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ بار بار اپنے فیصلوں سے حکمران اتحاد کو نشانہ بنا رہا ہے اور پی ٹی آئی کی حمایت کررہا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو یاد دہانی کرائی کہ کس طرح نواز شریف کو عدلیہ نے نشانہ بنایا اور حوالہ جات دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدلیہ کے دہرے معیارات ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے تک فوج اور عدلیہ پر مبنی طاقتور اسٹیبلشمنٹ پر حملوں سے پرہیز کرنے والی مریم نواز نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اب دوبارہ سے اپنی توپوں کو چلانا کر دیا ہے۔ اپنی پریس کانفرنس میں مریم نواز نے ہلکا سا اشارہ دیا کہ ’’امپائرز‘‘ کی طرف سے عمران خان کو حمایت مل رہی ہے لیکن انہوں نے فوراً ہی یہ بھی کہا کہ فی الحال وہ اس معاملے پر خصوصاً بات نہیں کرنا چاہتیں۔ مریم نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت، جس کی قیادت ان کے چچا کر رہے ہیں، غیر فعال ہے اور اگر وہ حکومت میں ہوتیں تو فوراً حکومت چھوڑ دیتیں۔ لہذا سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں اگر فوج اور عدلیہ پر مبنی اسٹیبلشمنٹ نے شہباز شریف حکومت پر فوری الیکشن کے لیے دباؤ ذیادہ بڑھایا تو مسلم لیگ نون بھی اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی جانب کر دے گی جس کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہو چکا ہے۔