کیا ایوانِ صدر کی آرڈیننس فیکٹری اب بند ہو جائے گی؟


گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرنے کی بجائے ایوان صدر سے صدارتی آرڈینینسز جاری کروا کر کاروبارِ حکومت چلانے والی کپتان حکومت کو سپریم کورٹ کی تازہ رولنگ کے بعد شدید مشکلات کا سامنا ہو گا کیونکہ اس سے ایوان صدر کی آرڈیننس فیکٹری بند ہو جانے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس قاضی امین نے حکومت کی جانب سے بلا ضرورت صدارتی آرڈیننسز کے نفاذ کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا یے کہ آرڈیننس صرف ہنگامی صورت حال میں جاری کیا جا سکتا ہے۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کے طریقہ کار کی بھی وضاحت کی ہے۔ آئینی و قانونی کے مطابق سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے بعد ایوان صدر سے آرڈی نینس فیکٹری کا کام لینے والے عمران خان کو قانون سازی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ پارلیمنٹ میں اسے واضح اکثریت حاصل نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو جولائی 2021 میں آگاہ کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف حکومت نے جولائی 2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے 3 برسوں کے دوران کم از کم 54 صدارتی آرڈیننس جاری کیے۔ ان میں سے کچھ آرڈیننس وفاقی حکومت کی معمول کی کاروائیوں کے لیے بھی جاری کیے گئے۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومت کے پہلے پارلیمانی سال میں 7 اور دوسرے پارلیمانی سال میں 30 آرڈیننس جاری کیے گئے، تیسرے پارلیمانی سال میں 16 سے زائد آرڈیننس پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
گزشتہ دنوں کپتان حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈینینس کے ذریعے انکم سپورٹ لیوی کے نفاذ کے خلاف 581 درخواستوں کا فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے بینچ نے مشاہدہ کیا کہ صدر اور صوبائی گورنر آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں لیکن ان کے آرڈیننس جاری کرنے کے اختیارات آئین کے تحت محدود ہیں۔
اب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ صدر صرف وفاقی قانون سازی سے متعلق کسی معاملے میں اسی صورت میں آرڈیننس جاری کر سکتا ہے جب نہ تو سینیٹ اور نہ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہو، عدالت نے کہا کہ ایسا صرف ان حالات میں کیا جاسکتا ہے جب کسی معاملے میں فوری کارروائی کرنا ضروری ہو اور ہنگامی صورت حال کا سامنا ہو۔ فیصلے میں کہا گیا کہ بیان کردہ پیشگی شرائط میں سے کسی ایک کی بھی عدم موجودگی میں صدر اور گورنر آرڈیننس جاری نہیں کر سکتے ہیں، آرڈیننس صرف ہنگامی حالات میں جاری کیے جاسکتے ہیں کیونکہ آئین صرف اس ہی کی اجازت دیتا ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ آئین کے ہر لفظ اور اس میں بتائے گئے طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے، ایسا کرنے سے بدگمانیاں اور بداعتمادی دور ہوتی ہے اور نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ وقت، پیسے اور محنت کے ضیاع سے بھی بچاتا ہے، جیسا کہ اس کیس میں دیکھا گیا ہے، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس سے ان لوگوں کی تذلیل ہوتی ہے جن کے لیے یہ بنایا گیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے انکم سپورٹ لیوی ایکٹ 2013 کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان ٹیکس دہندگان کے حق میں فیصلہ دیا تھا جن کے پاس 10 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے خالص منقولہ اثاثے ہیں۔ ٹیکس دہندگان نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ ایکٹ فنانس ایکٹ 2013 کے ذریعے نافذ کیا گیا حالانکہ اس میں منی بل کے اجزا نہیں تھے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 73 (2) میں بتایا گیا ہے، اس لیے اگر اسے قانون بنانا تھا تو اسے آئین کے آرٹیکل 70 میں بیان کردہ عام قانون سازی کے طریقہ کار کے مطابق عمل کرنا تھا، تاہم ایکٹ کو منی بل کے طور پر یا منی بل کے مطلوبہ جز کے طور پر پاس کرکے پاکستان کی سینیٹ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا ہے کہ یہ ایکٹ غربت کے خاتمے کے اعلان کردہ مقصد کے تحت سماجی قانون سازی تھی، یہ اگرچہ ایک قابل قدر مقصد تھا لیکن اس سے ایکٹ منی بل کی تعریف میں نہیں شمار کیا جاسکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ چونکہ یہ ایکٹ منی بل نہیں تھا اس لیے اسے آئین کے آرٹیکل 70 کے مطابق دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کیا جانا لازمی تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ناقدین طنزاً یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر صدر مملکت کو آرڈیننس جاری کرنے بھی روک دیا گیا تو آخر وہ ایوان صدر میں کریں گے کیا کیونکہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں انہوں نے 60 کے قریب آرڈیننس جاری کرنے کے علاوہ کچھ کیا ہی نہیں۔

Related Articles

Back to top button