کیا جنرل باجوہ عمران کو معاف کر کے ایک موقع اور دیں گے؟

عمران خان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اگلے الیکشن اور نئی حکومت کے قیام تک اپنے عہدے پر برقرار رکھنے کی تجویز کو سابق وزیراعظم کی جانب سے معافی نامہ قرار دیا جا رہا ہے جس کے بعد اب گیند جنرل باجوہ کی کورٹ میں ہے جنہوں نے معافی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران کی اس تجویز کا بنیادی مقصد ممکنہ نااہلی سے بچنا ہے جس کے قوی امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے عمران خان کی ذہنی حالت اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ وہ آج کی گئی بات پر کل تک بھی قائم نہیں رہ پاتے، اسی لیے موصوف کل تک جس شخص کو نیوٹرل، جانور، میر جعفر، میر صادق، ہینڈلر، اور امریکی سازش کا شراکت دار قرار دے رہے تھے اب اُسی کو اگلے الیکشن تک برقرار رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خان صاحب نے تجویز دی ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی نئی حکومت کرے اور تب تک جنرل باجوہ بطور آرمی چیف اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ حسب سابق عمران خان یہ تجویز دینے کے بعد اب آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ انہوں نے توسیع کی بات تو نہیں کی۔ لیکن ان کے ترجمان فواد چوہدری کپتان کی تجویز کی وضاحت کرتے ہوئے تسلیم کر چکے ہیں کہ خان صاحب توسیع ہی کی بات کر رہے ہیں اور انہوں نے موجودہ بحران سے نکلنے کا بہترین فارمولا دیا ہے۔ لیکن وزیر دفاع خواجہ آصف نے ردعمل دیتے ہوئے عمران خان کو یاد دلایا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو نہ کسی مشورے کی ضرورت ہے اور نہ کسی فارمولے کی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل کو متنازعہ بنانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یا تو اس معاملے کو اگلی حکومت آنے تک لٹکایا جائے اور یا نیا چیف انکے مشورے سے لگایا جائے۔ فواد چوہدری پہلے ہی یہ بیان داغ چکے ہیں کہ اگر عمران خان کے مشورے کے بغیر نیا آرمی چیف لگایا گیا تو وہ متنازع ہو جائے گا۔ لیکن خان صاحب اور ان کے دست راست شاید بھول رہے ہیں کہ آئین کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی اپوزیشن کے مشورے سے نہیں ہوتی جیسا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نیب کے معاملے میں ہوتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ویسے بھی عمران ایسی عجیب شخصیت ہیں کہ ان سے مشورہ کر بھی لیا جائے تو انہوں نے بعد میں اپنے ہی تجویز کردہ نام کی مخالفت شروع کر دینی ہے جیسا کہ سکندر سلطان راجہ کے ساتھ ہوا۔ ایسے میں غالب امکان یہی ہے کہ موجودہ حکومت نئے آرمی چیف کو سنیارٹی کی بنیاد پر تعینات کرے گی تاکہ مزید کوئی تنازعہ کھڑا نہ ہو پائے۔
عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو اگلے الیکشن اور نئی حکومت کے قیام تک اپنے عہدے پر برقرار رکھنے کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران کو اب بھی یقین ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ برسر اقتدار آ جائیں گے۔ اسی لیے وہ یہ چاہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کا انتخاب اگلا وزیر اعظم کرے۔ لیکن سیاسی تجزیہ کارسمجھتے ہیں کہ اب عمران کا کھیل ختم ہونے والا ہے اور آنے والے ہفتوں میں وہ عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دے دیئے جائیں گے۔ عمران خان بھی اس خطرے کو بھانپ چکے ہیں اور اسی لیے اپنے امریکہ اور باجوہ مخالف بیانیے سے یو ٹرن لیتے ہوئے اب دونوں کے پیروں میں گر گئے ہیں، ظاہر ہے یوٹرن لینا بقول خان صاحب عظیم لیڈروں کی نشانی ہوتا ہے۔ امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگانے والے عمران اب اسی امریکہ سے پس پردہ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور چپکے چپکے ملاقاتیں کر رہے ہیں، اسکے علاوہ وہ جنرل باجوہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہت بہتر کرنا چاہتے ہیں۔
سینئر صحافی اسد علی طوراورعمران شفقت دونوں نے یہ دعوی ٰکیا ہے کہ عمران خان نے صدر عارف علوی کے توسط سے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایک خفیہ ملاقات کی تاکہ معاملات میں بہتری لائی جا سکے۔ لیکن اس ملاقات کا انجام تلخی پر ہوا اور وہ 15 منٹ بھی نہ چل پائی۔ چنانچہ خان صاحب نے جنرل باجوہ کو دوبارہ راضی کرنے کے لیے توسیع کا فارمولا پیش کردیا۔ یاد رہے کہ جنرل باجوہ پر 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کر تاریخی دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو برسراقتدار لانے کا الزام لگتا ہے۔ اس کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ہائبرڈ نظام حکومت متعارف کروایا اور عمران کا دل و جان سے ساتھ دیا، لیکن پھر عمران اور باجوہ کا نئے آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی پر اختلاف پیدا ہوگیا، عمران نے اپنی حکومت جانے پر اُسی آرمی چیف کو ولن بنا دیا اور اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے ان کے خلاف غداری کے ٹرینڈ بھی چلوا دیے۔ لیکن اپنے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت مختلف کیسوں میں نا اہلی کے خطرے سے دوچار ہونے کے بعد عمران نے اُسی آرمی چیف کو آئندہ انتخابات اور نئی حکومت کے قیام تک عہدے پر دیکھنے کی تجویز دے دی ہے۔ یعنی اب خان صاحب گڑگڑا کر جنرل باجوہ سے معافی مانگ رہے ہیں اور رحم کی اپیل کر رہے ہیں۔
دوسری جانب گیٹ نمبرچار کے چوکیدار کہلانے والے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اوراسٹیبلشمنٹ میں رابطے بحال ہوگئے ہیں او عمران خان اب نہ گرفتار ہوں گے اور نہ ہی اُن کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ان کے امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بھی تیزی سے بہتر ہو رہے ہیں۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ ماضی کی طرح الطاف حسین جیسا اپنے ہی ہاتھوں سے تراشا ہوا عمرانی بت پاش پاش کرے گی یا اسے ایک موقع اور دے گی؟