کیا ضمنی الیکشن کے نتائج نے عام انتخابات کی راہ ہموار کر دی؟

پنجاب کی 20 نشستوں کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے ہاتھوں نواز لیگ کی غیر متوقع شکست کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا الیکشن نتائج نے پاکستان میں عام انتخابات کی راہ بھی ہموار کردی ہے؟ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کے خاتمے کے بعد اب مرکز میں شہباز شریف کو بھی استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کا راستہ ہموار کر دینا چاہیے۔ لیکن دوسری جانب نواز لیگ کے حامی یہ توجیہہ پیش کر رہے ہیں کہ عمران کے بیانیے کی کامیابی اور پنجاب کے ضمنی الیکشن میں نواز لیگ کی اتنی بری شکست کے فوری بعد اگر عام انتخابات کی طرف جانے کا فیصلہ کیا گیا تو نواز لیگ کا مکمل دھڑن تختہ ہو جائے گا۔
حکومتی ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ ابھی تک مرکزی حکومت کے خاتمے کا فیصلہ نہیں کیا گیا کیونکہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکی ہے اور شہباز شریف کو کوئی فوری خطرہ درپیش نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت نہ بھی ہو تو مرکزی حکومت چلانے میں کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں۔ ویسے بھی عمران خان کو نومبر 2022 سے پہلے اقتدار سے نکالنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انھیں نئے آرمی چیف کی تقرری کا موقع نہ دیا جائے لہذا اب جب کہ جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں صرف چند ماہ باقی ہیں، حکومتی اتحاد نئے آرمی چیف کا تقرر کیے بغیر اقتدار نہیں چھوڑے گا۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی اس نازک وقت پر نہیں چاہے گی کہ حکومت تبدیل ہو اور آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے ساتھ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے ہونے والے حالیہ معاہدے ختم ہو جائیں۔
لیکن پھر بھی عوامی حلقوں میں یہ سوال زیربحث ہے کہ اگر پنجاب میں تحریک انصاف حکومت بناتی ہے تو وفاق میں مخلوط حکومت کب تک چل سکتی ہے؟ اس حوالے سے عمران خان کی اگلی حکمت عملی دیکھنا ہوگی تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ پنجاب حکومت چلانا چاہتے ہیں یا اسے توڑ کر مرکزی حکومت بھی گرانا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب بن بھی جائیں تو سیاسی غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہے گی لہذا تمام جماعتوں کو مل کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملک میں سیاسی استحکام کیسے لایا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے اس حوالے سے اہم فیصلے کرنے کے لئے پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
دوسری جانب نواز لیگ کے سربراہ نواز شریف نے بھی شہباز شریف کو الیکشن میں شکست کے بعد اگلی حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے پارٹی اجلاس بلانے کی ہدایت کر دی ہے۔ یہ جماعتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں یہ تو اگلے چند روز میں واضع ہو جائے گا لیکن مبصرین کے مطابق اب حالات ملک میں نئے عام انتخابات کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور موجودہ حکومت کے لیے ان کا راستہ زیادہ دیر تک روک کر رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پنجاب کے ضمنی الیکشن کے ہوشربا نتائج نے پاکستان کی سیاسی صورتحال یکسر تبدیل کر دی ہے۔ سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اب آئیڈیل صورت حال تو یہ ہونی چاہیے کہ عمران خان سمیت تمام سیاسی قیادت مل بیٹھے اور پاکستان کے لیے سوچے۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا اب صرف اور صرف ملک کی بات کی جائے اور نئے الیکشن کی طرف چلا جائے۔
پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلیٰ اور سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کے مطابق ’اگر بات عام انتخابات کی طرف جاتی ہے تو بھی ٹھیک اگر کوئی اور بات نکلتی ہے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں۔ جیسا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کرے وفاق میں اتحادی رہیں اور آئی ایم ایف ڈیل جیسے معاملات جو ملک کی بقا میں ہیں ان کا سوچا جائے۔‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اب عام انتخابات ہی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں کیوں کہ عمران کی اب یہی خواہش ہوگی کہ وہ اپنے حق میں چلنے والی عوامی لہر کا فوری فائدہ اٹھائیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’ان نتائج کے بعد سرکار حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کر کے فی الفور نئے انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے شاید اب اتحادی بھی بد دل ہو سکتے ہیں۔ رہی بات نومبر میں آرمی چیف کی تقرری کی تو وہ اب قصہ پارینہ ہو چکی کیونکہ کہ ہر جانب سے سے تنقید کا نشانہ بننے کے بعد بالآخر فوج نے غیر جانبدار ی اختیار کر لی ہے اور اپنا سیاسی کردار محدود تر کر دیا ہے۔ ایسے میں ملک کو درپیش معاشی چیلنجز نئے عام انتخابات کے متقاضی ہیں۔ انکاکہنا تھا کہ میں نومبر تک نئے انتخابات دیکھ رہا ہوں۔‘
خیال رہے کہ پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری کے علاوہ تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے بھی کہا ہے کہ فی الفور نئے انتخابات کروائے جانے چاہئیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق عام انتخابات سے زیادہ معاملہ ملک کی معاشی صورت حال ہے جس کا براہ راست تعلق ملکی سیاسی صورتحال سے ہے۔ لیکن حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو موجودہ بدترین معاشی بحران سے نکالنا ہے تو پھر موجودہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دینی چاہئے ورنہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، سعودی عرب، چین اور دیگر ممالک سے کیے گئے معاہدے بھی ختم ہو جائیں گے اور پاکستان کا معاشی بحران سنگین تر ہو جائے گا۔