کیا عمران استعفے واپس لیکر دوبارہ وزیر اعظم بننا چاہیں گے؟

پنجاب کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی حیران کن فتح کے بعد اب سب سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ عمران خان پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو قرار دیے جانے والے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوانے کے بعد ملک بھر میں نئے الیکشن کی خاطر خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومتیں ختم کر دیں گے یا قومی اسمبلی سے استعفے واپس لیکر شہباز کی جگہ دوبارہ اعظم بننے کی کوشش کریں گے؟ دوسری جانب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بھی یہ بڑا فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے حکومت توڑ کر فوری نئے انتخابات کا اعلان کرنا ہے یا پھر ایک مرتبہ پھر سے وفاق اور پنجاب حکومت کی رسہ کشی میں الجھنا ہے، یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا فیصلہ 22 جولائی کو ہونا ہے جس میں پرویز الٰہی کی جیت یقینی ہے جو اس وقت سپیکر کے عہدے پر تعینات ہیں۔ ماضی میں عمران خان پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دے چکے ہیں اور چند روز پہلے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے دور اقتدار میں اتحادیوں خصوصاً قاف لیگ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے۔ ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد کچھ پی ٹی آئی حلقے عمران خان کو یہ تجویز دے رہے ہیں کہ انہیں پرویز الٰہی کی بجائے کسی پارٹی وفادار کو وزیراعلیٰ بنانا چاہیے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی اپنے صاحبزادے زین قریشی کو وزیراعلیٰ بنوانا چاہتے ہیں جنہوں نے ملتان سے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن دوسری جانب عمران خان کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ قاف لیگ کے دس ووٹوں کے بغیر تحریک انصاف اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
یاد رہے کہ ضمنی الیکشن سے پہلے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ پر برقرار رہنے کے لئے نو سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنا تھی۔ حمزہ کا خیال تھا کہ وہ کم از کم 14 سیٹیں آسانی سے جیت لیں گے۔ اسی طرح پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بننے کے لئے 13 سیٹوں کی ضرورت تھی لیکن ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی آئی 17 سیٹیں جیت گئی۔ ایسے میں اب پرویزالٰہی کا صرف دس نشستوں کے ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بننے کا خواب ایک مرتبہ پھر پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ نواز لیگ نے ضمنی الیکشن کے نتائج تسلیم کرلیے ہیں اور پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ حمزہ صوبائی اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا ماضی کی طرح اب نواز لیگ بھی کہیں ویسے ہتھکنڈے تو نہیں اپناتی جیسے ماضی قریب میں حکومت سے چمٹے رہنے کے لیے عمران خان نے اپنائے تھے۔ کچھ لیگی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے درجن بھر ممبران صوبائی اسمبلی استعفے دے دیں تو پرویزالٰہی کا وزیر اعلیٰ بننا ممکن نہیں رہے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان استعفوں سے تحریک انصاف کے ووٹ تو کم ہو سکتے ہیں لیکن نواز لیگ کے ووٹ بڑھ نہیں سکتے اور بات ایک بار پھر ضمنی الیکشن کی جانب جائے گی جن کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
نون لیگی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی قیادت ضمنی الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے کرتی تو نتائج کچھ مختلف ہوتے کیونکہ منحرف پی ٹی آئی ارکان کو پارٹی ٹکٹ دینے سے ن لیگ کے اندر بھی ناراضگیوں نے جنم لیا اور عوام نے بھی انہیں مسترد کر دیا۔ لیکن لیگی قیادت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا چونکہ حمزہ شہباز منحرف اراکین کو اپنی جماعت کے ٹکٹ دینے کا وعدہ کر چکے تھے۔ اب عمومی تاثر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کا گڑھ کہلانے والا لاہور اب ن لیگ کا گڑھ نہیں رہا، اسے لاہور کی چار میں سے تین نشستوں پر شکست ہوئی ہے حالانکہ پارٹی قیادت نے پورا زور لگایا تھا اور مریم نواز نے بھی ان حلقوں میں جاکر جلسے کیے تھے۔ ویسے بھی ضمنی الیکشن کے حوالے سے مسلم لیگ ن بہت زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئی تھی اور اس کا خیال تھا کہ وہ نہایت آسانی سے 13 سے زائد نشستیں جیت جائے گی۔ لیکن پولنگ ڈے سے چند روز قبل جب ایجنسیوں اور دیگر حلقوں کی سروے رپورٹس سے انکشاف ہوا کہ ن لیگ بہت کمزور ہے تو ہنگامی بھاگ دوڑ شروع کی گئی، وفاقی و صوبائی وزراء سے استعفے دلوا کر حلقوں میں بھیجا گیا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی گئیں لیکن تب تک عمران کے فوج اور امریکہ مخالف بیانیے کا جادو چل چکا تھا لہذان لیگ کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ضمنی الیکشن میں واقعی نیوٹرل رہی، یہ پہلا موقع تھا کہ الیکشن کے روز پولنگ بوتھز کے اندر فوجی تعینات نہیں کیے گئے تھے جنہوں نے 2018 کے الیکشن میں اپنا کمال دکھایا تھا اور عمران خان کو اقتدار دلوایا تھا۔ نیوٹرل رہنے کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا اپنا فیصلہ قرار دیں یا پھر عمران کے مسٹر ایکس اور مسٹر وائے مخالف بیانیے کا دباؤ، لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ اسٹیبلشمنٹ پر کسی بھی حلقے میں دھاندلی کروانے کا کوئی الزام عائد نہیں ہوا۔ اب اگر حمزہ شہباز نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا تو 22 جولائی سے پہلے پرویز الٰہی نئے وزیر اعلیٰ بن جائیں گے بصورت دیگر 22 جولائی کو پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بن جاۓ گی۔