کیا محسن نقوی وزارت اعلٰی کے امتحان میں کامیاب ہوں گے؟

معروف لکھاری اور کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے سینئر صحافی محسن نقوی کی بطور نگران وزیراعلٰی پنجاب تعیناتی کو ایک مستحسن فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ محسن کا امتحان ہے۔ صحافت کے شعبے میں وہ خود کو منوا چکے ہیں اور اب ان کا دوسرا امتحان شروع ہونے والا ہے لیکن ان کی صلاحیتوں کے پیش نظر مجھے قوی امید ہے کہ وہ اس امتحان میں بھی سرخرو ہوں گے۔

اپنی تازہ تحریر میں عطاالحق قاسمی کہتے ہیں کہ میں محسن نقوی کو تب سے جانتا ہوں جب وہ اپنے ماڈل ٹائون لاہور کے گھر میں بہت عظیم الشان ضیافتوں کا اہتمام کیا کرتے تھے، تب وہ معروف امریکی ادارے سی این این کے ساتھ وابستہ تھے۔ ان کی ضیافتوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لیڈر شریک ہوتے تھے اور میں بھی ان محفلوں میں مدعو ہوتا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ اس ’’لڑکے‘‘ کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ ہر کوئی اس کے بلاوے پر چلا آتا ہے۔ یہ جو میں نے محسن نقوی کو ’’لڑکا‘‘ کہا ہے تو وجہ یہ ہے کہ تب وہ پچیس تیس سال کے ’’لڑکے‘‘ ہی تھے اور اب بھی زیادہ سے زیادہ وہ چالیس پینتالیس کے نوجوان ہیں۔

عطاالحق قاسمی کہتے ہیں کہ اب ماشااللہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ ہیں، موصوف غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں، انہوں نے میڈیا انڈسٹری کو ایک نئے رجحان سے روشناس کرایا اور پھر بہت کم عرصے میں ان کے چینلز مقبول سے مقبول تر ہوتے چلے گئے۔ محسن نقوی سے ملیں تو آج بھی ان کے چہرے پر ایک معصومیت سی نظر آتی ہے، ان میں کوئی ’’پھوں پھاں‘‘ نہیں ہے۔ وہ عام آدمیوں سے بھی عام آدمیوں ہی کی طرح ملتے ہیں، اپنے سٹاف کے ساتھ بھی ان کا رویہ مالکانہ نہیں شروع ہی سے دوستانہ رہا ہے، وہ جب اپنے چینلز کے کسی شعبے میں جاتے ہیں تو ’’با ادب ہو شیار ‘‘ کی صدا لگانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ ہر ایک سے ہنستے مسکراتے ملتے ہیں تھوڑی بہت گپ شپ بھی لگاتے ہیں اور یوں ان کی آمد سے کوئی سنسنی پیدا نہیں ہوتی، کارکن ان کے دوستانہ رویے کی وجہ سے کوئی لبرٹی نہیں لیتے بلکہ پہلے سے زیادہ فعال ہو جاتے ہیں۔ اور ہاں، محسن نقوی ہر سال اپنے سٹاف کے درجنوں افراد کو حج، عمرہ اور زیارتوں پر لیجاتے ہیں۔ آپ یہ سن کر بھی حیران ہوں گے کہ ماہ رمضان میں ان کے دسترخوان پر روزانہ دس ہزار افراد کھانا کھاتے ہیں۔ سٹی 42 اخبار کے ایڈیٹر نوید چوہدری نے مجھے بتایا کہ اس عظیم الشان ضیافت میں چھوٹے بڑے میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا بلکہ سب ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔

عطا اللہ قاسمی کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے نگران وزیر اعلیٰ کے لئے دو نام اور تحریک انصاف نے غالباً تین نام پیش کئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے پی ڈی ایم کے دیئے گئے دو ناموں میں سے محسن نقوی کی منظوری دی۔ ان سےپہلے میڈیا کی دو شخصیات نجم سیٹھی اور حسن عسکری، مختلف ادوار میں نگران وزیر اعلیٰ کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ نجم سیٹھی صحافت کا بہت بڑا نام ہیں اور وہ آل رائونڈر ہیں چنانچہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں اور ان دنوں بھی اس بڑے عہدے پر فائز ہیں، اصل بات اہلیت کی ہوتی ہے۔ نجم سیٹھی نے ان دونوں شعبوں میں کارکردگی کا اعلیٰ معیار پیش کیا اور اب محسن نقوی کا امتحان ہے۔ ایک شعبے میں وہ خود کو منوا چکے ہیں اور اب ان کا دوسرا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ نگراں وزیر اعلیٰ کو بنیادی فیصلے نہیں کرنا ہوتے ،صرف صوبے کے نظم ونسق میں شفافیت لانے کی کوشش کرنا ہوتی ہے؟ ڈے ٹو ڈے پیش آنے والے مسائل حل کرنا ہوتے ہیں، تاہم اس کا اصل کام الیکشن میں ’’دو نمبری‘‘ روکنا ہوتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ محسن نقوی اس نئی ذمہ داری کو کس طرح نبھاتے ہیں، میں محسن کو جتنا جانتا ہوں۔ اسکے پیش نظر مجھے امید ہے کہ وہ یہاں بھی اپنی وہ صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے جو وہ میڈیا کی انڈسٹری کے حوالے سے بروئے کار لائے تھے۔انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ میڈیا میں عزت اور کامیابی ایک عہد تک محدود ہوتی ہے۔مگر نگراں وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کی کارکردگی انہیں ہمیشہ سربلند رکھے گی۔ مجھے امید بھی ہے اور دعا بھی کہ محسن نقوی کو جو اعزاز حاصل ہوا ہے وہ خود کو اس کا اہل ثابت کریں گے بلکہ بعد میں آنے والوں کے لئے بھی مشعل راہ ثابت ہوں گے۔

Related Articles

Back to top button