کیا نئے DG FIA پشاور BRT منصوبے میں انصاف کر پائیں گے؟

پشاور ہائیکورٹ نے پشاور بی آر ٹی منصوبے میں کرپشن کی تحقیقات کے لیے 45 دن کی ڈیڈ لائن دے کر حال ہی میں تعینات ہونے والے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کو مشکل میں ڈال دیا ہے خصوصاجب کے انہیں حکومت کا خاص آدمی سمجھا جا رہا ہے اور بی آر ٹی کیس میں وزیر دفاع پرویز خٹک کا نام بھی آ رہا ہے۔
واجد ضیاء کو شاید علم نہیں تھا کہ انہیں اپنی تقرری کے فوری بعد ایسے سنگین چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اس چیلنج سے بالکل مختلف ہے جس کا ان کے پہلے ڈی جی بشیر میمن کو سامنا رہا۔ میمن پر حکومت کی مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لئے دبائو تھا تو واجد ضیاء کو تحریک انصاف کی بدانتظامی اور ناکامی کی زندہ مثال یعنی بی آر ٹی پشاور منصوبے میں کرپشن کی تحقیقات کو دسمبر کے آخر تک مکمل کرنے کے لیے دباو ہے۔
واجد ضیاء کیلئے اس کیس سے راہ فرار اختیار کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ یہ ہدایت پشاور ہائی کورٹ نے جاری کی ہے۔ یاد رہے کہ عدالت بی آرٹی منصوبے کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے قرار دے چکی ہے کہ خیبر پختونخواہ میں کسی فزیبلٹی جائزے کے بغیر شروع کئے گئے بس ریپیڈ ٹرانزٹ منصوبے میں بڑے پیمانے پر بدانتظامی ہوئی۔ اب چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی کیس میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے ایف آئی اے کو 45 دن میں تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے جاری کئے گئے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جعلی فنانشل ماڈل پر شروع کئے گئے بی آرٹی منصوبے میں ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے لاگت میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
واجد ضیاء کو عدالت عالیہ کے جاری کئے گئے فیصلے میں اٹھائے گئے دو درجن سوالات کے جوابات دینے ہیں بلکہ فیصلے میں پرویز خٹک، اعظم خان، شاہ محمد اور دیگر کے نام بھی شامل ہیں کہ معلوم کیا جائے کہ مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے کوئی گٹھ جوڑ تو نہیں ہے۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے یہ فیصلہ خود گزشتہ 14نومبر 2019کو تحریر کیا تھا۔ جس میں کیس تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا تھا۔ فیصلے میں ایف آئی اے کے لئے تحقیقات کی غرض سے ممکنہ سوالات اور قابل غور نکات شامل ہیں جس میں ممکنہ مشکوک معاہدوں کے حوالے سے سوالات کے جوابات مانگے گئے ہیں، جبکہ اعلیٰ سیاسی اور بیوروکریٹک شخصیات میں مبینہ گٹھ جوڑ اور کرپشن کے بارے میں بھی استفسار کیا گیا ہے۔ فیصلے میں سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ منصوبہ کسی تخیل اور منصوبہ بندی کے بغیر شرو ع کیا گیا۔ منصوبہ فزیبلٹی رپورٹ اور پی سی-ون کے بغیر کیوں شروع کیا گیا؟ عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ انکوائری رپورٹ میں کوئی قصور وار نکلا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عدالت عالیہ کے فیصلے میں استفسار کیا گیا ہے کہ پرویز خٹک، ڈائریکٹر جنرل پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی وٹو، اعظم خان، شہباز علی شاہ اور شاہ محمد، وزیرٹرانسپورٹ میں کیا گٹھ جوڑ ہے۔ مطلوبہ شیئرز کی ہیر پھیر میں یہ گٹھ جوڑ کیسے بنا؟ تاہم مذکورہ شخصیات نے کسی گٹھ جوڑ یا ہیر پھیر سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء اپنے پیشرو کی طرح دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے عدالتی احکامات کی روشنی میں بی آر ٹی پشاور میں ہونے والی کرپشن کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں یا ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے تحقیقات کو سرد خانے کی نظر کرتے ہیں