کیا نومبر میں آرمی چیف کا فیصلہ عمران خان کریں گے؟


حالیہ ضمنی الیکشن کے باعث پاکستان کے سیاسی منظر پر برپا ہونے والی سیاسی ہلچل کے بعد اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اگلے آرمی چیف کا انتخاب وزیراعظم شہباز شریف کریں گے یا ان کی چھٹی کروا دی جائے گی اور بالآخر عمران خان اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ن لیگ کا صفایا ایسے ہوا ہے جیسے برسوں پہلے پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ہوا تھا۔ یہ محض اتفاق ہی ہو گا کہ ن لیگ بیانیے اور کارکردگی کے محاذ پر تین ماہ میں وہاں آ کھڑی ہوئی جہاں پہلے تحریک انصاف کھڑی تھی۔

اب ن لیگ کی قیادت لاکھ کہے کہ یہ تو ہمارے حلقے ہی نہ تھے اور نہ ہی امیدوار ہمارے تھے، مگر سچ یہی ہے کہ چند ماہ پہلے تک لگاتار ضمنی انتخابات جیتنے والی جماعت بلآخر سیاسی زندگی اور موت کا یہ معرکہ ہار گئی۔

ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن اور خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ معجزے ہوا کرتے ہیں اور اعجاز دکھانے والے اس کے مظاہرے بھی سرعام کرتے ہیں۔ لیکن سیاست کے کھیل میں معجزے کم اور سائنس زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ پنجاب کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں جو سائنس استعمال ہوئی اُس کے سادہ فارمولے نے دو جمع دو پانچ کر دکھایا۔ ہو سکتا ہے کہ محض اتفاقات کی اس دنیا میں انہونی کو ہونی میں بدلنے والے الجبرے کے فیثا غورثی اصول طے پا گئے ہوں یا عمران خان کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگ گیا ہو، یا کپتان کے ستارے اوجِ ثریّا سے بھی اوپر چمکنے لگے ہوں، مگر جو بھی ہوا وہ معجزے سے آگے کی کوئی سائنس لگتی ہے۔

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ ایک انہونی 22 مئی کو بھی ہوئی جب عمران خان نے اچانک لانگ مارچ کا فیصلہ کیا جو کسی کی رضا تھی یا ٹریپ، اس کا اندازہ نتیجے سے لگایا جا سکتا ہے۔ اُدھر شہباز شریف 23 مئی کی شام کو پی ٹی وی کے ذریعے قوم کو استعفے اور عام انتخابات کی خبر دینے کی تیاری کر چکے تھے کہ عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا اور پھر نواز شریف نے شہباز شریف کو نہ صرف الوداعی تقریر سے روک دیا بلکہ ڈٹ جانے کا پیغام بھی دے دیا اور یوں عمران خان عام انتخابات کی یہ اہم کامیابی سمیٹنے سے محروم ہو گئے جبکہ لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا بھی نکل گئی۔

وہ سوال کرتی ہیں کہ کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ غیر مقبول فیصلوں کے بدلے تسلسل یقینی بنانے کی ضمانت والے ہاتھ مصلحتاً یا ارداتاً کھینچ لیے گئے۔ اور کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ نواز شریف کا مزاحمتی بیانیہ عمران خان لے اُڑے اور راتوں رات اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیے پر جیت کی مُہر ثبت کر دی اور اب دائیں بائیں سے طاقت کے مرکز پر حملے ہو رہے ہیں۔ بقول عاصمہ اتفاقات کی اس دُنیا میں قسمت کے دھنی صرف عمران خان ہی ہیں کہ کل تک طاقتور حلقوں کے گُن گاتے تھے اورآئی ایس آئی چیف سے لے کر آرمی چیف تک اور چیف جسٹس سے لے کر سابقہ چیف تک اُن کے ہی صفحے پر تھے اور وزیراعظم کی کُرسی سے اُترنے کے بعد ایک دن بھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ اقتدار کے اس کھیل سے کبھی باہر بھی ہوئے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ اب بھی جب چاہیں، جہاں چاہیں کہیں بھی کھڑے ہو کر کسی کو الزامات کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی طاقت کا مرکز ہیں اور آنے والے دنوں میں وہی اصل اسٹیبلیشمنٹ بھی ہوں گے۔

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے چیف الیکشن کمشنر پر حالیہ حملے اوراستعفے کا مطالبہ کسی اور گراؤنڈ کی تیاری ہے یا فارن فنڈنگ کیس میں دباؤ بڑھانے کا طریقہ؟ اس بارے میں بھی فیصلہ اُن کے حق میں ہوا تو محض اتفاق ہی ہو گا۔ بہر حال محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب کے راستے کی شاید آخری دیوار چیف الیکشن کمشنر ہی ہیں جس کے بعد گلیاں سونی ہوجائیں گی اور وچ مرزا یار پھرے گا۔

بقول عاصمہ شیرازی، عمران خان اپنے بہترین میڈیا، سوشل میڈیائی ہتھیاروں سے لیس اپنے اہداف کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ادارے اب شدید دباؤ کا شکار ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ضمنی انتخابات سے چوبیس گھنٹے قبل ایک ہنگامی آزادی صحافت سیمینار میں اُنھوں نے ’جرنیلوں کے یوٹرن کو اچھا‘ قرار دے کر یہ پیغام بھی دیا کہ انہیں واپسی پر کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اب ہو سکتا ہے کہ عمران 29 نومبر کی تاریخ سے پہلے دو تہائی اکثریت کے وزیراعظم بننے کا ہدف بھی حاصل کر لیں اور اپنی مرضی کا آرمی چیف بھی تعینات کر دیں جبکہ اس دوران مشکل معاشی فیصلے حکمران اتحاد کرتا رہے اور غیر مقبول بھی ہوتا رہے۔

خاتون اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ جمہوری ریاستوں میں وزیراعظم منتخب ہوتے ہیں مگر وطن عزیز میں آرمی چیف منتخب کرنے کے لیے وزیراعظم تعینات ہوتا ہے اور عمران خان اب اس طاقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ دوسری جانب آخری خبریں آنے تک حکمران اتحاد اپنی آئینی مدت پوری کرنے پر ڈٹ گیا ہے، اب خدا جانے کس کے ستارے خروج پر ہوں اور کس کے عروج پر لیکن سچ یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں نے عمران خان کو نومبر سے پہلے اسی لیے نکالا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے آرمی چیف کا انتخاب نہ کر پائیں۔

Related Articles

Back to top button