نیا وزیراعظم آزاد کشمیر قومی خزانہ لوٹنے اور لٹانے لگا

سردار عبدالقیوم نیازی کو بے دخل کرنے کے بعد آزاد کشمیر کے وزیراعظم بننے والے سینٹورس مال کے ارب پتی مالک سردار تنویر الیاس نے اپنوں کو نوازنے کے لئے اپنی جیب سے پیسہ خرچنے کی بجائے سرکاری خزانے کے منہ کھول دیے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے فوری بعد سردار تنویر الیاس ایک غیر اخلاقی سکینڈل میں پھنس گئے تھے جس سے نکلنے کے لیے اب انہوں نے اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چودھری کے لیے دس کروڑ روپے سے زائد لاگت کی مرسڈیز ایس 500 فورمیٹک خریدنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں حالانکہ صدر آزاد کشمیر کے پول میں پہلے ہی ایک درجن سے زیادہ قیمتی گاڑیاں موجود ہیں۔

لانگ مارچ توڑ پھوڑ، پی ٹی آئی رہنمائوں‌ کی ضمانتیں منظور

یہ خبر بریک کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے اس بارے نوٹیفکیشن عین اس دن جاری ہوا جب چار وزرا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ اس بار اسلام آباد سے ملنے والی گرانٹ میں صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں کی مد میں رقم کی کٹوتی کشمیریوں کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے۔ مرسڈیز کی خبر پر اور تو اور خود آزاد کشمیر میں حکمران پی ٹی آئی کے بہت سے حامی بھی چلا اٹھے ہیں اور انھوں نے پارٹی قائد عمران خان سے براہ راست اللوں تللوں کو رکوانے کے لیے مدد کی اپیل کی ہے۔ اس سے پہلے سردار تنویر کی حکومتِ چار سابق وزرائے اعظم کے لیے دو کروڑ روپے سے زائد کی اضافی گرانٹ کی بھی منظوری دے چکی ہے۔ اس رقم سے سردار یعقوب خان، سردار عتیق احمد، چوہدری عبدالمجید اور عبدالقیوم نیازی کو نئی کرولا 1800 سی سی دلائی کی جائیں گی۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم جلیل القدر راجہ فاروق حیدر اور سابق صدر اور حال مقیم واشنگٹن سفیرِ پاکستان ہز ایکسیلینسی سردار مسعود خان گزشتہ برس سبکدوش ہوتے ہی 1800 سی سی کرولا بطور استحقاق وصول پا چکے ہیں۔

وسعت کہتے ہیں کہ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب قومی معیشت گہری کھائی کے دہانے پر کھڑی ہے اور ڈالر مستقل قومی خزانے کے قلعے میں شگاف بڑھاتا جا رہا ہے۔ کفایت شعاری ، لگژری آئٹمز کی درآمد اور بجلی کی بچت کے لیے کاروبار کی جلد بندش سمیت ایک ہا ہا کار الگ مچی پڑی ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہ آئی ایم ایف کے روٹھے سیاں کیسے مانیں گے۔کسی لال بھجکڑ کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ملک کو سری لنکا بننے سے روکنے کے لیے پھسلواں ڈھلان پر ایسی کیا رکاوٹ ڈالے کہ کم ازکم اس میں پاؤں ہی اٹک جائیں۔ بھلے ہم بھی ساتھ لٹک جائیں۔

وسعت کہتے ہیں کہ اس پس منظر میں آزاد کشمیر کا قومی خزانہ لٹائے جانے کی خبریں تکلیف دہ ہیں خصوصاً جب وہاں کی حکومت کا لگ بھگ نوے فیصد بجٹ اسلام آباد فراہم کرتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم اس استحقاق پر بعض حلقے اتنا واویلا کیوں کر رہے ہیں۔معیشت تو پھر بھی ایک نہ ایک دن بحال ہو جائے گی۔عزت اور استحقاق ایک بار مجروح ہو جائے تو بحال ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی مذکورہ بالا تمام عظامِ گرامی تحریکِ آزادیِ کشمیر کے نامور ہیروز میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق برمنگھم تا مظفر آباد مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے اپنی جوانی لٹا دی۔ ان ہی کے سبب آج چار دانگِ عالم میں کشمیر کا باجا بج رہا ہے اور بے آواز بھی ہے۔شہید مقبول بٹ ، سید علی گیلانی ، یاسین ملک اور لائن کے اس پار مصروفِ جدوجہد دیگر اکابرین کی جدوجہد بھی اپنی جگہ سراہنے کے قابل ہے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سردار ابراہیم خان ، میر واعظ یوسف شاہ ، سردار عبدالقیوم نے بھی کشمیر کاز کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔مگر کشمیریوں کی نئی قائدانہ پود کی قیادتی صلاحیت اور مثالی کارکردگی کا سابقینِ کرام میں سے شاید کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد میں حصہ لینے والے قائدِ اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری ، فاطمہ جناح کے منہ بولے بیٹے ، آزاد کشمیر کے آئینی معمار اور صدر کے ایچ خورشید زندہ ہوتے تو آزاد کشمیر کی موجودہ قیادت کے آدرش اور عمل کو دیکھ کے نہال ہوتے اور اپنی مسلسل دعاؤں سے نوازتے۔ وائے قسمت آپ کا انتقال 11 مارچ 1988 کو تب ہوا جب آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں ایک عام گمنام مسافر کی طرح سفر کر رہے تھے اور اس مسافر گاڑی کو حادثہ پیش آ گیا۔کاش خورشید صاحب آج ہوتے تو 1800 سی سی کی استحقاقی برانڈ نیو ٹیوٹا کرولا میں محفوظ رہتے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آزاد کشمیر کے صدر کے لیے جو دس کروڑ روپے سے زائد کی گاڑی خریدی جائے گی یا سابق صدور اور وزرائے اعظم کو جو بھاری بھاری کرولاز دی گئیں یا دی جائیں گی وہ ان کے ذاتی استعمال کے لیے ہیں ؟ آپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں۔ چونکہ کشمیر ایک دشوار پہاڑی علاقہ ہے وہاں بھاری فوجی گاڑیوں کی نقل و حرکت آسان نہیں۔ لہٰذا اب یہ قیادت انہی گاڑیوں میں بیٹھ کر جہادِ کشمیر کی پیشوائی کرتے کرتے سری نگر میں داخل ہو گی اور اس پار کے کشمیریوں کو فتح کے بعد انہی گاڑیوں کی چھت اور بونٹ پر بٹھا کے وکٹری کا نشان بنانے کا موقع دے گی۔انشااللہ۔ جب تک وہ دن نہیں آتا تب تک یہ گاڑیاں اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر مشقیں کریں گی اور کبھی کبھار مظفر آباد میں بھی درشن کروائیں گی۔

Related Articles

Back to top button