گل سما کے سر کی ہڈی، ناک، جبڑا اور پسلیاں ٹوٹی نکلیں

سندھ کے علاقے ضلع دادو میں 10 سالہ بچی کی سنگساری کے واقعے کی تصدیق ہوتی نظر آتی ہے چونکہ عدالتی احکامات پر بنائے گئے خصوصی میڈیکل بورڈ نے قبر کشائی کے بعد اپنی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں گل سما کی موت کی وجہ سر پر بھاری چیز لگنے کو قرار دیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی بتایا ہے کہ بچی کا ناک، جبڑا اور پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔
ذرائع کے مطابق دادو کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج کے احکامات پر 4 دسمبر کو میڈیکل بورڈ نے گل سما کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کیا، اس ٹیم میں ایک لیڈی ڈاکٹر اور تین مرد ڈاکٹر شامل تھے جو حیدرآباد سے بھیجے گئے تھے۔ اس موقعہ پر جوڈیشل مجسٹریٹ بھی موجود تھے۔ میڈیکل بورڈ کے مطابق سر میں بڑے فریکچر کے علاوہ بچی کی پسلیاں، ناک اور جبڑا ٹوٹے ہوئے تھے۔ چہرے پر بھی زخم کے نشانات ہیں۔ ڈاکٹر وحید نے میڈیا کو بتایا کہ سر پر کوئی بھاری چیز لگنے سے موت واقع ہوئی ہے تاہم مذکورہ زخموں کے علاوہ جسم کی بیرونی سطح پر زخم کے نشانات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ زخم سنگساری کی وجہ سے ہیں یا کسی اور وجہ سے، ہم ابھی یہ نہیں کہہ سکتے۔
پوسٹ مارٹم کے دوران لاش کے مختلف حصوں سے اجزا لیے گئے اور ڈی این اے کے لیے بھی نمونے حاصل کیے گئے، ڈاکٹر وحید کے مطابق ڈی این اے سے یہ تصدیق کی جائے گی کہ جو لاش پوسٹ مارٹم کے لیے ان کے حوالے کی گئی وہ اسی بچی کی ہے جبکہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کوئی جنسی عمل تو نہیں ہوا۔
ڈاکٹروں کے بورڈ نے بچی کی عمر کا تعین دس سے بارہ سال کے درمیان کیا اور بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ تین چار روز میں جاری کردی جائے گی جبکہ ڈی این اے میں دس سے پندرہ روز لگ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ سندھ کے علاقے واہی پاندھی کے تھانے میں سرکار کی مدعیت میں بچی کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ 22 نومبر کو گل سما کو بچی کے والد علی بخش رند نے اپنے رشتے دار علی نواز سمیت چار افراد کے ہمراہ منصوبہ بندی کر کے دس سالہ گل سما کو پتھر مار کر بے دردی سے سنگسار کر دیا تھا جس کے بعد پولیس نے گل سما کے قتل کا مقدمہ دائر کر کے والدین سمیت چار افراد کو حراست میں لیا تھا۔
مذکورہ ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا کہ لڑکی کی نماز جنازہ مولوی مشتاق نے پڑھائی جبکہ سامان تاج محمد رستمانی سے خریدا گیا، انھیں بھی شریک جرم قرار دیا گیا ہے۔ مقامی اطلاعات پر پولیس نے پہلے نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی مشتاق لغاری کو حراست میں لیا جس کی نشاندہی پر قبر کی نشاندہی کی گئی اور پھر لڑکی کے والد اور والدہ کو بھی تھانے لے جایا گیا۔
دوسری جانب لڑکی کے والد علی بخش کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کی موت حادثاتی طور پر ہوئی ہے، بقول ان کے بچی کی موت پہاڑی تودے کے نیچے دب کر ہوئی اور یہ کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا۔