صدر علوی نے حکومتی ایڈوائس پر دستخط کیوں کئے؟

وفاقی حکومت نے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے عمرانڈو صدر عارف علوی کو بھجوائی جانے والی ایڈوئس کو متنازع بنانے کا امکان ختم کرنے کے لیے نامزد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ری ٹین کرنے کا فیصلہ کیا ،وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ۔ دوسری جانب اس حکومتی فیصلے کے بعد صدر عارف علوی نے عمران خان سے مشورے کے لیے لاہور پہنچنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اب دستخط نہ کرنے کا جواز ختم ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ صدر علوی زمان پاک میں آج شام ہی سابق وزیراعظم سے ملاقات کی۔ حکومتی ذرائع کی جانب سے  اس امید کا اظہار کیا جا رہا  تھاکہ صدر عارف علوی عمران خان کو فیس سیونگ دینے کے لیے ان سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم کی جانب سے بھجوائی گئی ایڈوائس پر دستخط کر دیں گے۔

ذرائع کے مطابق 24 نومبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ری ٹین کرنے کی سمری پڑھ کر سنائی جسے کابینہ نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ ذرائع کاکہنا ہےکہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت جب کسی فوجی افسر کی ریٹائرمنٹ کا وقت آتا  ہے تو وہ وزارت دفاع سے فارغ ہونے کی پرمیشن یا اجازت مانگتا ہے۔ اسی طرح عاصم منیر نے بھی وزارت دفاع میں ریٹائرمنٹ کی پرمیشن کی درخواست دی تھی جسے وزارت دفاع نے مسترد  کر دیا  اور انہیں ری ٹین کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ نئے آرمی چیف کا عہدہ سنبھال سکیں۔ پاکستان آرمی ایکٹ میں یہ قانون موجود ہےکہ کسی بھی افسر کو ری ٹین کیا جا سکتا ہے، اسی لیے وزارت دفاع نے حفاظتی انتظامات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی ری ٹین کی سمری بنائی تاکہ صدر کی جانب سے سمری  روکے جانے کی صورت میں عاصم منیر 27 نومبر کو ریٹائر نہ ہوں اور یہ عمل قانونی طور پر بہتر طریقے سے انجام دیا جا سکے۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے جمعرات کو جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف اور ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے صدر مملکت کو ایڈوائس بھیج دی ۔ لیکن یہ اطلاع آ رہی تھی کہ صدر عارف علوی لاہور  میں عمران خان سے ملاقات کے بعد وزیراعظم کی جانب سے بھجوائی گئی ایڈوائس پر دستخط کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ عمران خان پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ آرمی چیف کی تقرری پر صدرِ علوی ان سے رابطے میں ہیں اور ان سے مشاورت کریں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں اور صدر آئین کے اندر رہتے ہوئے اس معاملے پر کھیلیں گے۔ چنانچہ حکومتی حلقوں میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صدرِ اس معاملے پر کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 48 کے سیکشن اے کے تحت صدرِ مملکت وزیراعظم یا وفاقی کابینہ کی تجویز کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن آئین کے تحت وہ 15 روز کے اندر وزیراعظم یا وفاقی کابینہ کو ایڈوائس نظر ثانی کے لیے واپس بھیج سکتے ہیں۔ اسکے بعد صدرِ مملکت نظرثانی شدہ یا دوبارہ بھیجی گئی اس ایڈوائس کو 10 روز کے اندر منظور کرنے کے پابند ہوں گے۔ آئین کا آرٹیکل 48 صدرِ مملکت کو اس حوالے سے بھی بااختیار بناتا ہے کہ ان کے اس اقدام کو کہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ حکومتی حلقوں میں یہ خدشہ بھی پایا جا رہا تھا کہ صدر آرمی چیف کی تعیناتی کی ایڈوائس روک سکتے ہیں۔

دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر صدر سمری روک کر بیٹھ جاتے ہیں تو بھی حکومت عاصم منیر کو 29 نومبر سے بطور سینئر موسٹ جرنیل آرمی چیف کے عہدے کا چارج سنبھالنے کو کہہ سکتی ہے۔ تاہم حکومتی ذرائع اس امید کا اظہار کر رہے تھےکہ عارف علوی اپنے قائد عمران خان کے کہنے پر کوئی چول نہیں ماریں گے اور وزیراعظم کی جانب سے بھجوائی گئی ایڈوائس پر دستخط کر دیں گے۔

Related Articles

Back to top button