آصف زرداری ملکی سیاست کے مستند جادوگر کیسے بنے؟


ہر مشکل اور نازک صورتحال میں اپنے سیاسی حریفوں پر بھاری پڑ کر انہیں دنگ کر دینے والے آصف علی زرداری نے ایک مرتبہ پھر خود کو پاکستانی سیاست کا مستند جادوگر ثابت کردیا ہے، لیکن ‘ایک زرداری سب پر بھاری’ ثابت ہو جانے کے باوجود سابق صدر اب مصر ہیں کہ اس نعرے کو تبدیل کیا جائے اور ‘ایک زرداری، سب سے یاری’ کے نعرے کو فروغ دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بھاری اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لہٰذا مجھے یہ نعرہ لگا کر گنہگار نہ کیا جائے۔ تاہم آصف زرداری کے مداحین کا اصرار ہے کہ انہوں نے سیاسی دانش اور ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے مسلسل دشمنوں کو مات دے کر خود کو اپنے ساتھی سیاست دانوں سے زیادہ برتر ثابت کیا ہے، انکے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اگر زرداری نہ ہوتے تو عمران کا اقتدار سے جانا، شہباز شریف کا وزیراعظم بننا اور حمزہ کا وزیر اعلی رہنا کسی بھی صورت ممکن نہ ہوتا۔ لہٰذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آصف زرداری نے سب سے یاری ڈال کر ایک مرتبہ پھر خود کو عمران خان اور انکے ساتھیوں سے بھاری ثابت کردیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح آصف علی زرداری نے پچھلے ایک برس میں عمران مخالف سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور پھر انہیں تحریک عدم اعتماد لانے پر راضی کیا وہ ایک ناممکن ٹاسک تھا۔ 16 مارچ 2021 کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں جب آصف زرداری نے بغیر نام لیے نواز شریف کی ملک واپسی اور جمہوری جدوجہد میں حصہ ڈالنے کی بات کی تو مریم نواز ناراض ہو گئی تھیں۔ تب آصف زرداری نے عمران سے چھٹکارے کے لیے لانگ مارچ کی بجائے ایوان کے اندر سے تبدیلی لانے کی تجویز دی تھی لیکن نواز لیگ اور مولانا فضل الرحمان اسمبلیوں سے استعفے دے کر لانگ مارچ کرنے پر مصر تھے۔ حکومت مخالف جماعتوں کی صفوں میں انتشار کے ماحول میں تب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صرف ایک سال بعد یہی جماعتیں عمران کو زیر دام لے آئیں گی اور کان سے پکڑ کر اقتدار سے باہر کر دیں گے۔ جب پی ڈی ایم میں شامل اکثریتی جماعتوں کے قائدین لانگ مارچ اور استعفوں کو ٹرمپ کارڈ قرار دے رہے تھے، تب زرداری نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’کبھی ہم سے بھی سیاست سیکھ لیا کریں’۔ آصف زرداری کی سیاست کے نتیجے میں اسمبلیوں سے استعفے دینے کا پروگرام بنانے والی اتحادی جماعتیں آج اقتدار میں ہیں اور عمران خان استعفے دے کر قومی اسمبلی چھوڑ چکا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آصف زرداری سے پہلے پاکستانی سیاست میں نواب زادہ نصر اللہ خان ایک ایسی شخصیت تھے جو مختلف جماعتوں کو جوڑ کر اتحاد بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ مخالفین کو ساتھ ملانے کا ملکہ ہی تھا جس کے بل بوتے پر نوابزادہ نصراللہ نے جنرل ایوب سے جنرل مشرف تک کے خلاف احتجاجی تحریکیں منظم کیں۔ نوابزادہ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد آصف زرداری انکی سیاسی روایات کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ وہ بھی توڑنے کی بجائے جوڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں احتجاجی تحریکوں اور سیاسی اتحادوں کی ایک قدر مشترک اور خاصہ رہی ہے، وہ ہے تبدیلی کی تحریکوں کا طویل احتجاج ، تشدد، توڑ پھوڑ اور آخر میں حکومت وقت کی رخصتی کا غیر آئینی انداز اور طریقہ کار۔
لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی وہ پہلا موقع تھا جب سڑکوں پر صدائے احتجاج اور ہنگاموں کے بغیر منتخب ایوان کی مرضی سے حکومت گھر چلی گئی۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقہ کار کے تصور کی صورت گری کا معمار اگر آصف علی زرداری کو قرار دیا جائے تو اس پر یقین کی کئی وجوہات ہیں۔ گزشتہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات حکومت کے لیے ایوان بالا میں عددی اکثریت میں اضافے کی وجہ سے آئینی اور جمہوری مضبوطی کا ذریعہ بننے والے تھے۔ مگر یوسف رضا گیلانی کی غیرمتوقع جیت نے تحریک انصاف کی ہر حوالے سے مضبوط سمجھی جانے والی حکومت کی فصیل میں چھوٹا سا شگاف ڈال دیا۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلوں سے لاتعلقی کی وجہ سے 27 مارچ 2021 کا مجوزہ مارچ ملتوی ہوا تو مخالفین نے اس پر شادیانے بجائے۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی سے بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ حکومت مخالف جماعتوں کے پاس آئندہ انتخابات کی تیاری کے سوا اقتدار میں آنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جارحانہ اور تلخ تنقید سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے اشتراک کے بغیر اپنی جنگ علیحدہ لڑنا چاہتے ہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن احتجاج کے بجائے اپنے انتظار کی پالیسی پر گامزن ہوگئے تھے۔ لیکن پھر 5 فروری کو اچانک آصف زرداری بلاول بھٹو کے ہمراہ شہباز شریف کے گھر پہنچ گے۔ جس نے سیاست کے بظاہر پرسکون پانیوں میں ’تحریک عدم اعتماد‘ کا ایسا پتھر پھینک دیا جس کی لہروں نے حکومتی اتحاد کے لیے طوفان اٹھا دیا، بالاخر وفاق اور پنجاب کی حکومتیں اسکی زد میں آ گئیں۔ پھر وہ وقت آیا جب شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے اور حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ۔ لیکن جب حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ خطرے میں پڑی تو آصف زرداری نے پھر سے اپنی سیاست کا جادو جگایا اور پرویز الہی کے وزیر اعلی بننے کا راستہ بند کر دیا۔

مسلم لیگ ن کے لیے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آصف زرداری کے سیاسی مشورے اور معاونت نے ان کے لیے اقتدار کا راستہ ہموار کیا ہو۔ 2008 کے انتخابات سے قبل نواز شریف کی جماعت اے پی ڈی ایم کا حصہ بن کر انتخابات کو لاحاصل قرار دے کر بائیکاٹ کا راستہ اختیار کر چکی تھی۔ ایسے میں آصف زرداری نے نواز شریف کو انتخابی عمل میں شرکت پر قائل کیا۔ جس نے بعد میں مسلم لیگ ن کے لیے پنجاب میں اقتدار کی راہ ہموار کی۔اس کا تسلسل 2013 کے انتخابات میں مرکز میں بھی حکومت کے حصول میں مددگار ثابت ہوا۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے مختلف الخیال سیاسی قوتوں کو حکومتی مراعات سے اپوزیشن کی مشکل بھری صفوں میں لانے کے لیے آصف زرداری کام کر رہے تھے۔

آصف علی زرداری کی اس صلاحیت کے پیچھے عملی سیاست کی تفہیم کا وہ درس ہے جو دہائیوں کے تجربات سے حاصل کیا گیا ہے۔ محترمی بے نظیر بھٹو کی زندگی میں آصف زرداری نے جو وقت جیل کی سلاخوں کے باہر گزارا اس میں ان کا کردار پس منظر میں رہ کر حکمت عملی وضع کرنے کا تھا۔ پیپلز پارٹی کی 2008 میں بننے والی حکومت کے بعد آصف زرداری کی مشہور زمانہ مفاہمت کی سیاست کے جوہر کھلے۔ انہوں نے پرویز مشرف کی چھٹی کروانے کے بعد دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ اشتراک اور تعاون کا راستہ اختیار کیا۔ اس میں بیشتر وہ سیاسی جماعتیں تھیں جن کے ساتھ ماضی میں پیپلز پارٹی کا بدترین سیاسی دشمنی کا طویل پس منظر موجود تھا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایک روز چوہدری ظہور الٰہی کا خاندان پیپلز پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہوگا۔ اسی طرح ولی خان کی جماعت اور پیپلز پارٹی کے درمیان پرتشدد مخاصمت کو بھول کر سیاسی یکجائی میں آصف زرداری کا تلخیاں بھول کر آگے بڑھنے کا فلسفہ کارفرما تھا۔ ان سب سے بڑھ کر مسلم لیگ ن بالخصوص شریف خاندان اور بھٹو فیملی کے درمیان سیاسی انتقام اور نفرت کے دو دہائیوں پر مشتمل سفر میں مفاہمت کا موڑ بھی انہی کے مرہون منت تھا۔ اسی لئے پاکستانی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ آصف زرداری کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے کوئی اپوزیشن اتحاد پہلی مرتبہ ایک وزیر اعظم کو جمہوری طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس موو کی کامیابی میں دیگر عوامل کے ساتھ زرداری کی سیاسی مہارت اور ذہانت نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس لیے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سیاست کے جادوگر آصف زرداری نے سب سے یاری ڈال کر خود کو حریفوں پر بھاری ثابت کرنے کا اعزاز برقرار رکھا ہے۔

Related Articles

Back to top button