آڈیو ریکارڈنگز کرنے والے ہیکر تک پہنچنے کا فارمولہ تیار


تحقیقاتی ادارے وزیراعظم ہاؤس کی آڈیوز لیک ہونے کے بعد ایسے تمام افراد کی لسٹ تیار کر رہے ہیں جو ان میٹنگز میں شریک ہوئے تھے۔ لسٹ کی تیاری کے بعد ایسے تمام افراد، ان کے موبائل فونز، اور ان میٹنگز کے دوران استعمال ہونے والے انٹرنیٹ راؤٹرز کا فرانزک ہو گا تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ سائبر سکیورٹی بریچ کہاں سے ہوا اور اس میں کون کون ملوث تھا۔

حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں ہونے والی بات چیت کی کئی آڈیو کلپس لیک ہونے کے بعد مستقبل میں کسی بھی ممکنہ لیک کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے ہیں جن میں ’نچلے عملے پر بھرپور نظر رکھنا‘ شامل ہے جبکہ ان کی نقل و حرکت بھی کم کردی گئی ہے۔اس کے علاوہ کسی کو بھی وزیراعظم ہاؤس کے اندر موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح کے لیکس کو روکنے کے لیے سائبر سکیورٹی کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ پچھلے ہفتے ایک آڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آئی تھی جس میں وزیر اعظم شہباز شریف اپنے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ کے ساتھ ایک توانائی منصوبے کے لیے بھارتی مشینری کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے کے امکان پر بات کر رہے تھے جو کہ ان کی بھتیجی مریم نواز کے داماد کی خواہش تھی۔ اسکے اگلے روز وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں بارے مزید ریکارڈنگز منظر عام پر آئیں، جنہیں پی ٹی آئی رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا۔ خوفناک بات یہ تھی کہ لیک ہونے والی ریکارڈنگز فون کی بجائے وزیر اعظم کے دفتر میں آمنے سامنے ہونے والی گفتگو پر مبنی ہیں۔ اس کے اگلے روز مزید آڈیو کلپس لیک ہوئے تھے جن میں مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ رہنما ضمنی الیکشن بارے حکمت عملی تشکیل دے رہے تھے جو حال ہی میں سیلاب کی وجہ سے ملتوی ہوئے تھے۔

پی ایم ہاؤس کی ریکارڈنگز لیک ہونے کا سلسلہ تب شروع ہوا جب 20 اگست کو ہیکرز کے ایک فورم پر ’انڈی شیل‘ کے نام سے ایک ہیکر نے اپنے پاس آڈیوز کی موجودگی سے متعلق ایک پوسٹ کی۔ ہیکر نے اپنی پوسٹ کا نام Pakistani PM office Data leaked یعنی ’پاکستانی وزیراعظم کے دفتر کا لیک شدہ ڈیٹا‘ رکھا تھا۔

اس کی کم از کم بولی 180 بٹ کوائن رکھی گئی تھی جو پاکستانی کرنسی میں کروڑوں روپے بنتی ہے۔ ان لیک آڈیوز کے معاملے پر معروف سائبر سکیورٹی ماہر رافع بلوچ کا کہنا ہے کہ بظاہر تاثر یہی کہ ہیکر نے یہ آڈیو لیکس معاشی فائدے کے لیے کیں۔ لیکن بعد ازاں اس نے وضاحت کردی کہ ریکارڈنگز برائے فروخت نہیں ہیں۔ رافع بلوچ کو امریکی سائبر سکیورٹی جریدے ’چیک مارکس‘ نے دنیا کے پانچ اعلیٰ ترین ہیکرز میں شمار کیا ہے اور وہ آج کل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی میں سینئر کنسلٹنٹ ہیں۔ انہوں نے ’انڈی شیل‘ سے متعلق بتایا کہ یہ ایک معروف انڈین ہیکنگ گروپ ہے، جس کا کام ایک دہائی سے ویب سائٹس کو ’ڈی فیس‘ یعنی ہیک کر کے اپنا پیغام دینا ہے۔ بقول رافع: ’چونکہ یہ اکاؤنٹ نیا ہے جس سے وزیراعظم ہاؤس کے ڈیٹا سے متعلق پوسٹ کی گئی اس لیے اس کی تحقیقات ضروری ہیں کہ آیا یہ وہی گروپ ہے یا کوئی ان کا نام استعمال کر کے مالی فائدے لینا چاہتا ہے یا پھر پاکستان کے اداروں اور شخصیات کی بدنامی کرنا چاہتا ہے۔‘

دوسری جانب حکومتی ذرائع کا خیال ہے کہ آڈیو ریکارڈنگز لیک کرنے میں عمران خان کی جماعت اور اسکے لیے ہمدردی رکھنے والے انٹیلی افسر ملوث ہیں۔ ان کے مطابق اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ عمران خان نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ مریم نواز کی ایک ریکارڈنگ آنے والی ہے جس میں وہ اپنے والد نواز شریف کے ساتھ توشہ خانہ کیس کے حوالے سے گفتگو کر رہی ہیں۔ اسکے علاوہ انڈی شیل نامی جس ہیکر نے شہباز شریف کی آڈیوز ریلیز کی ہیں اس نے اب یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ 13 نمبر کے جرنیل کی باری بھی آ گئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان آرمی کے موجودہ جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں نمبر 13 پر موجودہ آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد موجود ہیں جن کو جنرل قمر باجوہ نے عمران خان کی مرضی کے خلاف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ آئی ایس آئی چیف تعینات کیا تھا۔ اوپر تلے آڈیو لیکس کی وجہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دو دھڑوں کی آپسی لڑائی کو قرار دیا جا رہا ہے جو کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے منسلک ہے۔

سائبر سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیکرز کا موجودہ نیٹ ورک توڑے بغیر وزیر اعظم ہاؤس محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ سائبر سکیورٹی کے ماہر رافع بلوچ کے مطابق پاکستان میں اس وقت کوئی سائبر سکیورٹی ایجنسی صحیح سے فعال نہیں جو صریحاً اس مسئلے کو دیکھے۔ باقی دنیا میں یہ کام انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بجائے سائبر سکیورٹی ایجنسی کا ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں اور ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کو محفوظ بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو ریکارڈنگز لیک کرنے والوں تک پہنچنے کے لیے پتہ کرنا ہو گا کہ ان اجلاسوں میں کون کون شریک تھا۔ ابھی تک جتنی آڈیو لیکس ہوئی ہیں یا جو بھی ہوں گی، اس میں ایک ہی شخص ہمیشہ موجود تھا یا کون سا کمرہ زیادہ تر استعمال ہوا، اگر ہر ایسی میٹنگ میں شہباز شریف موجود تھے تو یہ ممکن ہے کہ ان کا فون ہیک ہوا ہو۔ انہوں نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ چونکہ ایک سابق وزیراعظم کی آڈیو لیک ہوچکی ہے، اس سے بظاہر لگتا تو یہی ہے کہ بگنگ وزیراعظم ہاؤس کی گئی ہے نہ کہ کسی مخصوص ڈیوائس کی۔

اس کشمکش کے ماحول میں جب اکثر لوگ ان حساس سائبر سکیورٹی کے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، رافع بلوچ کا عمران خان کی حکومت کو لکھا جانے والا ایک خط سوشل میڈیا پر دوبارہ گردش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ایک سال قبل انہوں نے یہ واضح موقف دیا تھا کہ سمارٹ فون ڈیوائسز اور ٹیبلٹس کا داخلہ ایسے اجلاسوں میں نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے اپنے خط میں روس کی مثال دی تھی جس نے الیکٹرونک ٹائپ رائٹرز اور پیپر پر اجلاسوں کی ریکارڈنگ کا ذکر کیا تھا کیونکہ اس کی وجہ سے ایک فرانزک ٹریل باقی رہ جاتا ہے جس سے ڈیوائس کی تشخیص با آسانی ہوجاتی ہے۔

رافع نے بتایا کہ ’مجھ سے جب آڈیو لیکس کے حوالے سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آیا یہ بگنگ ڈیوائسز تھیں تو میں کہتا ہوں کہ ہر سمارٹ فون بذات خود ایک بگنگ ڈیوائس کا کام انجام دے سکتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ پرائم منسٹر ہاؤس کا ایک ضابطہ ہوتا ہے کہ ’ڈی بگنگ‘ روٹین کا عمل ہے۔ اس حوالے سے اب دیکھا یہ جانا چاہیے کہ اس دوران یہ سب احتیاطی تدابیر استعمال میں لائی گئیں یا نہیں۔ ان کے خیال میں اب بھی بہتر حل ڈیوائسز کو ایسے اجلاسوں میں نہ لے جانا ہے تاکہ قومی سطح کے معاملات کو محفوظ تر بنایا جاسکے۔

Related Articles

Back to top button