اداروں کی مخالفت کرنے والوں کو ووٹ نہیں دے سکتا


اپنے ایک خط کی وجہ سے پاکستانی سیاست کا مرکز نگاہ بن جانے والے قاف لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ وہ کھلے عام اداروں کی مخالفت کرنے والوں کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا ڈرامائی انداز میں رخ موڑنے والے شجاعت حسین نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اور اپنے کزن چوہدری پرویز الہٰی کی مخالفت کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں اداروں پر تنقید کرنے والوں کے امیدوار کی حمایت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے سلسلہ وار ٹوئٹس میں واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے ان کے امیدوار پرویز الٰہی ہی تھے، ہیں اور رہیں گے لیکن وہ انہیں پی ٹی آئی کا نامزد امیدوار بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

چوہدری شجاعت نے اپنی ٹوئٹس میں لکھا کہ ’اداروں کے ساتھ 30 برس سے ایک تعلق رہا ہے، میں اداروں پر تنقید کرنے والوں کی حمایت کیسے کر سکتا ہوں، ادارے ہیں تو پاکستان میں استحکام ہے‘۔ انہوں نے لکھا کہ ’ملک اس وقت جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس میں تمام لیڈران اپنے ذاتی مفادات اور ذاتی سوچ کو بالائے طاق رکھیں تاکہ ملک مزید بحرانوں کا شکار نہ ہو جائے ورنہ عوام اور ادارے اور ملک مزید نظریوں میں تقسیم ہوگا اور ملک مفاد پرستوں کے ہتھے چڑھ جائے گا‘۔ پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الہٰی نے تصدیق کی ہے کہ یہ اکاؤنٹ واقعی مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کا ہے اور اسے ان کے صاحبزادے چوہدری سالک حسین چلا رہے ہیں۔

چوہدری شجاعت حسین نے اپنی ٹوئٹس میں مزید لکھا کہ ’سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت بنا کر غلط معنی نکالنے کی کوشش نہ کریں اور سب کچھ بھول کر صرف اور صرف ملکی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے محاذ آرائی والی سیاست کو ترک کردیں‘۔ سلسلہ وار ٹوئٹس کے اختتام پر انہوں نے لکھا کہ ’جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملے وہ سیاسی مخالفین کے پاس جائے اور ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے لیے مل بیٹھ کر مشاورت سے آگے بڑھا جائے‘۔

دوسری جانب مونس الٰہی نے دعویٰ کیا کہ چوہدری شجاعت پر بہت زیادہ دباؤ تھا اور انہوں نے عمران خان کے امیدوار کے طور پر پرویز الٰہی کی حمایت کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ گزشتہ روز اپنی ضمانت کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مونس الہٰی سے سوال کیا گیا کہ چوہدری شجاعت پر کس قسم کا دباؤ ڈالا گیا، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو یہ سوال چوہدری شجاعت سے ہی کرنا چاہیے۔ مونس الٰہی نے کہا کہ گزشتہ روز چوہدری شجاعت سے خط کے حوالے سے بات ضرور ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ میں نے خط ضرور لکھا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ(ق) کے ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں کسی کو بھی ووٹ نہ دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس پر کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ پرویز الہٰی ابھی الیکشن نہ جیتیں جس پر انہوں نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ضرور بنیں لیکن عمران خان کے نہ بنیں۔

مونس الٰہی نے کہا کہ میں نے شجاعت صاحب سے کہا کہ اس طرح پرویز الٰہی الیکشن ہار جائیں تو وہ خاموش ہو گئے، میں نے ان سے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی لیکن ان پر کمرے میں کوئی اور دباؤ بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے معذرت کر لی تو پھر میں نے بھی معذرت کر لی۔ واضح رہے کہ چوہدری شجاعت کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے روز پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر/پریذائیڈنگ افسر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ’مسلم لیگ (ق) کے صدر نے وزیراعلیٰ کے امیدوار پرویز الٰہی سمیت پارٹی کے تمام 10 ارکان اسمبلی کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے ووٹ حمزہ شہباز کے حق میں ڈالیں‘۔ خط کے ساتھ مسلم لیگ (ق) کے صدر کی جانب سے پارٹی کے ارکان اسمبلی کو جاری ہدایات کی کاپیاں بھی فراہم کی گئیں۔

Related Articles

Back to top button