ارشد شریف کا ضمیر بھی جاگ گیا، فوج کے خلاف بول پڑے


عمران خان دور حکومت میں خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں قاتلانہ حملے کا نشانہ بننے پر سینئر صحافی ابصار عالم کا مذاق اڑانے والے اینکر پرسن ارشد شریف کا سویا ہوا ضمیر بھی جاگ گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ارشد شریف نے اپنے پرانے موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ 75 سالوں سے ایک خاص مائنڈ سیٹ صحافیوں کی زبان بندی کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ماضی میں ابصار عالم اور دیگر صحافیوں کے خلاف بھی اسی مائنڈ سیٹ نے وارداتیں کیں۔ یاد رہے کہ ارشد شریف کے خیالات میں یہ تبدیلی اس لئے آئی ہے کہ وہ عمرانڈو بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے اس صحافتی قبیلے کا حصہ بن چکے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے سے برسر پیکار ہے اور اس وجہ سے اب انہیں انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔

ارشد شریف کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف درج کیسز سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے اور انکے پیچھے وہی ہاتھ ہیں جو پچھلے 75 سالوں سے پاکستان کو گھما رہے ہیں۔

ارشد شریف نے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف اب تک سات مقدمات درج ہو چکے ہیں جو سندھ اور بلوچستان میں درج کیے گئے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’مجھے ٹیلی فون پر دھمکیاں مل رہی ہیں کہ تم ملک بھر میں مقدمات کی وجہ سے عدالتوں میں پیشیاں بھگتو گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب تم پیشی کے لیے بلوچستان کے علاقے پشین جاؤ گے تو تمہیں راستے میں سے ہی اغوا کر لیا جائے گا۔‘

ارشد شریف کا کہنا تھا کہ گذشتہ 75 سالوں سے ایک مائنڈ سیٹ کوآرڈینیٹڈ کوششوں سے صحافیوں کی زبان بندی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘ انہوں نے کہا ’ماضی میں ابصار عالم اور دیگر صحافیوں کے خلاف بھی اسی مائنڈ سیٹ نے مقدمات درج کروائے۔‘ ارشد شریف کا کہنا تھا کہ ’ایف آئی اے نے جب حال ہی میں انکے خلاف تحقیقات شروع کیں تو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے انھیں فون کیا اور کہا کہ ان مقدمات سے ان کی جماعت اور حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے صحافی برادری کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’صحافی تنظیمیں اپنے باہمی احتلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی کے معاملے پر اکٹھے ہیں اور وہ ان صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف درج مقدمات میں ان کی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ان کی جماعت نے ہمیشہ اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت کی ہے تو وہ کیسے صحافیوں کے بولنے پر پابندی عائد کروانے کے لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر سکتے ہیں۔‘
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ’ان کی جماعت نے تنقید کو برداشت کیا ہے اور ان کے لیے وہ صحافی بھی قابلِ احترام ہے جو موجودہ حکومت یا ان کی جماعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اینٹی کرپشن کے ادارے کی طرف سے پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری میں بھی حکوت کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔‘ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’شیریں مزاری کے خلاف مقدمہ اس وقت درج ہوا تھا جب پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت تھی۔‘

حفاظتی ضمانت سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے دوران ارشد شریف جب کمرہ عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ انھوں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں جس پر ارشد شریف کا کہنا تھا کہ ’انھیں کہا جا رہا ہے کہ انھیں سبق سیکھایا جائے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انھیں ’راستے سے ہی اغوا کر لیا جائے گا‘۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک اور صحافی مطیع اللہ جان نے بھی ’کچھ دن سیر کی تھی‘۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کے خلاف ملک بھر میں مقدمات درج ہو رہے ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالت صرف حفاظتی ضمانت دے سکتی ہے کیونکہ جہاں پر یہ مقدمات درج ہوئے ہیں وہ اس عدالت کے دائرہ سماعت میں نہیں آتے۔

Related Articles

Back to top button