ارشد شریف کیس کے دو اہم ثبوت جائے وقوع سے غائب


کینیا کے میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ نیروبی میں پراسرار حالات میں قتل ہونے والے سینئر صحافی ارشد شریف کے زیر استعمال موبائل فون اور آئی پیڈ سمیت دو اہم ثبوت جائے وقوع سے غائب ہیں۔ کینیا کے معروف اخبار ’دی سٹار‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ارشد شریف کے قتل کے تین ہفتوں بعد بھی واردات کے اصل محرکات کے حوالے سے کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو سکی کیونکہ حقائق پر مسلسل پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کینین پولیس ارشد شریف کے زیر استعمال موبائل فون اور دیگر اشیا تلاش کرنے میں مصروف ہے حالانکہ پہلے یہ اطلاع آئی تھی کہ یہ دونوں چیزیں کینیا پولیس کی تحویل میں ہیں۔ لیکن اب بتایا جا رہا ہے کہ جس گاڑی میں ارشد شریف کا قتل ہوا اس میں سے ان اشیا کو غائب کر دیا گیا تھا۔ کینیا کے بعد اب پاکستانی میڈیا بھی یہ رپورٹ کر رہا ہے کہ ارشد شریف کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے قتل کیا گیا اور قتل سے پہلے ان پر بہیمانہ تشدد بھی ہوا۔

دوسری جانب انٹیلی جنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمر شاہد حامد اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر اطہر واحد پر مشتمل پاکستانی تحقیقاتی کمیٹی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے بعد وطن واپس آکر اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وفاقی حکومت کے حوالے کر چکی ہے۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان نے بھی اعلان کیا ہے کہ ارشد شریف کی موت شناخت میں غلطی کا معاملہ نہیں بلکہ انہیں منصوبہ بندی کر کے قتل کیا گیا۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل میں عمران خان، سلمان اقبال اور انکے خفیہ ساتھیوں کی تفتیش ضروری ہے کیونکہ عمران خود بتا چکے ہیں کہ ارشد شریف کو پاکستان سے نکلنے کا مشورہ انہوں نے دیا اور بیرون ملک سلمان اقبال نے ارشد شریف کے ٹھہرنے کے انتظامات کیے۔ کینیا میں بھی ارشد شریف وقار اور خرم نامی جن دو بھائیوں کا مہمان بنا وہ بھی سلمان اقبال کے ہی تعلق والے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی جانے والی دو رکنی تحقیقاتی ٹیم اب دبئی روانہ ہو رہی ہے تاکہ وہاں مقتول صحافی کے قیام کے حوالے سے معلومات اکٹھی کر سکے۔

بتایا جاتا ہے کہ کینیا میں قیام کے دوران پاکستانی تفتیش کاروں نے ارشد شریف کے زیر استعمال موبائل فون اور آئی پیڈ کے غائب ہونے پر کینین پولیس سے پوچھا تو جواب ملا کے مقتول صحافی کے زیراستعمال اشیا قتل کے بعد چوری کرلی گئی تھیں۔قتل کی اب تک کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے تھے جہاں ان کی میزبانی دو بھائی خرم احمد اور وقار احمد کررہے تھے۔ جب ارشد شریف کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تو وہ خرم کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے جس نے واقعے کے روز نیروبی جانے کے لئے آسان اور چھوٹے راستے کی بجائے لمبے اور دشوار گزار راستے کا انتخاب کیا۔

کینیا کے معروف نیوز چینل ’دی نیشن‘ کے مطابق پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے وقار اور خرم کے ایمو ڈمپ نامی ملکیتی انٹرٹینمنٹ کمپلیکس اور وہاں واقع شوٹنگ رینج کا بھی دورہ کیا اور جس کمرے میں مقتول صحافی نے ایک رات پہلے قیام کیا تھا اسکا بھی معائنہ کیا۔ تاہم وہاں کی انتظامیہ نے تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ کھل کر تعاون نہیں کیا۔ پاکستانی تفتیش کاروں کے خیال میں ارشد شریف کے قتل میں انٹرپول کے ذریعے وقار احمد اور خرم احمد کے ریڈ نوٹس جاری کروا کر انہیں گرفتار کیا جانا ضروری ہے تاکہ اصل قاتلوں تک پہنچا جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں بھائی نیروبی میں کافی اثر رسوخ رکھتے ہیں اور اسی لیے مقامی پولیس نے ابھی تک انہیں ارشد شریف کے قتل کیس میں شامل تفتیش نہیں کیا۔ دونوں بھائیوں کا سلمان اقبال سے بھی گہرا تعلق ہے جس نے ارشد شریف کو ان کے پاس مہمان بنا کر بھیجا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار بھی سلمان اقبال کو ارشد شریف کے قتل میں شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کے دبئی جانے کا بنیادی مقصد سلمان اقبال سے تفتیش کرنا بھی ہے۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق وقار احمد اور خرم احمد نے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ ارشد شریف اپنی فیملی کے ساتھ مستقل طور پر کینیا منتقل ہونا چاہتے تھے، اور اپنے ویزا میں توسیع کی درخواست دینے کے علاوہ وہ وہاں کوئی بزنس کرنے کا منصوبہ بھی بنا رہے تھے۔ لیکن ارشد شریف کی تیسری اہلیہ جویریہ نے کینیا کے نیوز چینل ’دی نیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کو کینیا چھوڑنے کا کہا تھا۔
جویریہ نےبتایا کہ مجھے کینیا محفوظ ملک نہیں لگتا تھا اس لیے میں نے ارشد کو کسی دوسرے ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا کہا تھا۔ اہلیہ نے بتایا کہ ان کی فیملی ارشد کے قتل کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا سوچ رہی ہے، انہیں لگتا ہے کہ پاکستان اور کینیا کی حکومت انہیں کبھی انصاف فراہم نہیں کریں گی۔یاد رہے کہ ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات کا ذکر تھا جس کے بعد اب ان کے جسم کے مختلف حصوں کی تصاویر بھی سامنے آگئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعی ٹارچر کیے گئے۔

حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ارشد شریف کے مبینہ قتل میں اسٹیبلشمنٹ کے اس دھڑے کا ہاتھ ہے جو عمران خان کو دوبارہ برسر اقتدار لانا چاہتا ہے اور اسی لیے سینئر صحافی کو قتل کروا کر اس کا مدعا حکومت کے سر ڈالنے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام ہو چکی ہے اور حکومت اصل قاتلوں تک پہنچنے والی ہے۔

Related Articles

Back to top button