ارشد شریف کی جانب سے ہراسانی کا دعویٰ متنازع ہو گیا


اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے تازہ ریمارکس کے بعد اے آر وائی نیوز کے اینکر ارشد شریف کی جانب سے ایف آئی اے پر عائد کردہ ہراسانی کے الزامات کی ساکھ پر سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔
27 اپریل کو ارشد شریف کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے کو کسی بھی صحافی کے خلاف کارروائی سے روکتے ہوئے ڈی جی ایف اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹسز جاری کیے تھے۔ ارشد شریف کے وکیل فیصل چوہدری نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا تھا کہ گذشتہ رات چند لوگوں نے ارشد شریف کے گھر پر انھیں ہراساں کیا۔ انھوں نے اپنی درخواست میں بتایا کہ اُن کا اپنے موکل سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے جس کی بنیاد پر انھیں شک ہے کہ ایف آئی اے نے انھیں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا ہوا ہے۔
ارشد شریف کے وکیل فیصل چوہدی کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اُن کے موکل کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے اُن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ ارشد شریف کی رپورٹنگ اور حکومت پر تنقید بتائی گئی۔
درخواست کے مطابق ارشد شریف ذرائع سے ملنے والی ان معلومات کے بعد ڈرے ہوئے ہیں کیوںکہ سول کپڑوں میں ملبوس افراد اُن کے گھر اور خاندان کی نگرانی کر رہے ہیں۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ارشد شریف کا آزادی اظہار کا آئینی حق سلب کیا جا رہا ہے جب کہ ان کے موکل کے خلاف کرمنل کیسز بنائے جانے سے متعلق معلومات پر ایف آئی اے جواب نہیں دے رہی۔ دوسری جانب ایف آئی اے نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کو نہ تو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی انھیں ہراساں کیا گیا ہے۔ یہ سب فیک نیوز ہے جس کا مقصد ہیرو بننا اور ایف آئی اے کو بدنام کرنا ہے۔ ایف آئی اے نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ ایسے جھوٹے پراپیگنڈے میں ملوث افراد پر کیس کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ارشد شریف کے دعوے کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ انکی گرفتاری سے متعلق قیاس آرائی شرانگیز پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے۔ صرف شک کی بنیاد پر پٹیشن دائر کرنے والوں کو ثبوت دینے چاہییں تھے۔ یہ عمران کی حکومت نہیں جس میں صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جائے۔
اس دوران اپنے دور حکومت میں کی صحافیوں کو گرفتار کروانے والے سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی ارشد شریف کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انکی جماعت حکومتی عتاب کا نشانہ بننے والے صحافیوں کے حق میں بھرپور آواز اٹھائے گی۔ تاہم 28 اپریل کو ارشد شریف کی ایف آئی اے کے خلاف مبینہ ہراسانی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اے آر وائی کے ایک پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد ختم کر رہے ہیں۔ایک گمراہ کن بیانیہ بنا دیا گیا کہ آدھی رات کو عدالتیں کیوں کھلیں، لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ عدالتیں کھلیں گی اور کسی شخص کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ارشد شریف کی پٹیشن کاغذ کا ایک ٹکڑا تھی مگر ہم نے اسے سنا حالانکہ ہراسانی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ آپ کہتے ہیں اس رات عدالت کیوں کھلی، کیا آپ کا چینل آئین کو عدالت سے بہتر سمجھتا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ معاملہ آئین یا کسی پسے ہوئے طبقے کا ہو تو عدالتیں رات تین بجے بھی کھلیں گی۔
دوران سماعت ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے ارشد شریف کے خلاف نہ تو کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی کوئی انکوائری کی ہے اور ایف آئی اے پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں جن کا بنیادی مقصد سستی شہرت حاصل کرنا ہے۔ اطہر من اللہ نے اس موقع پر اے آر وائی نیوز پر کاشف عباسی کے پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے ارشد شریف کے وکیل فیصل چوہدری سے پوچھا کہ ’کیا آپ نے کاشف عباسی کا پروگرام دیکھا؟ پروگرام میں حقائق کی تصدیق کے بغیر کیا کچھ کہا گیا، انھوں نے کہا کہ عدالت رات کو کیوں کھلی؟ عدالت سے عوام کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد ختم کر رہے ہیں۔ اس عدالت بارے بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس عدالت پہنچ گئے، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت فوری نوعیت کی درخواستیں نہ سنے؟ اگر رات تین بجے کوئی ارشد شریف کو اٹھائے تو کیا عدالت کیس نہ سنے؟‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی بیانیے کے لیے اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالت کسی کے پریشر میں نہیں آتی اور نہ ہی آئے گی۔ ’بنیادی حقوق کے لیے عدالت کھلیں گی، ان بیانیوں سے کچھ نہیں ہو گا۔‘
چیف جسٹس نے دوران سماعت اے آر وائی کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ اغوا ہونے سے پہلے ہی خدشات کی بنیاد پر عدالت آگئے ہیں۔ لیکن کیا اے آر وائی نے کبھی مسنگ پرسنز یا بلوچ سٹوڈنٹس بارے کوئی پروگرام کیا ہے؟ اے آروائی نے لاپتہ افراد کے لیے کتنی آواز اٹھائی جو اصل ایشو ہے؟

Related Articles

Back to top button