اطہر من اللہ جج ہو کر شہباز گل کے وکیل کیوں بن گئے؟


ہم ٹی وی کے اینکرپرسن محمد مالک نے الزام لگایا ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو ضمانت دیتے ہوئے ایسے ریمارکس دیے جو ان کی ماتحت عدالت میں شہباز کے خلاف زیر سماعت بغاوت کیس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اطہر من اللہ نے 15 ستمبر کو شہباز گل کوضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ ان کی عدالت بغاوت کے الزام کو مانتی ہی نہیں۔ ایسے میں محمد مالک نے سوال کیا ہے کہ اب شہباز گل کے خلاف اطہر من اللہ کی ماتحت عدالت میں زیر سماعت کیس میں جج کیا کوئی آزادانہ فیصلہ دے پائے گا۔ اینکر پرسن نے کہا کہ میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن شہباز کی ضمانت کیس کی سماعت کے دوران اطہر امن اللہ نے ایسے ریمارکس دیئے اور ایسے سوالات کیے جن سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ماتحت عدلیہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہم ٹی وی پر اپنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے محمد مالک نے کہا کہ ہمارے ججز کو سیاسی مقدمات کی سماعت کے دوران بلاوجہ ریمارکس دینے کی عادت پڑ گئی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں میڈیا میں بھر پور کوریج ملتی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ کام جسٹس افتخار چوہدری نے شروع کیا تھا اور اب یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ جج کیس سننے سے زیادہ ریمارکس دینے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اسی لیے 15 ستمبر کو شہباز شریف کی ضمانت کے کیس میں جسٹس اطہر من اللہ نے جو دلائل دیے، جو سوال کیے اور جو ریمارکس دیئے وہ انکی ماتحت عدالت میں شہباز گل کے خلاف زیر سماعت بغاوت کیس پر اثر انداز ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنا ذہن بتا دیا ہے اور نیچے فیصلہ کرنے والا جج ان کا ماتحت ہے چونکہ وہ چیف جسٹس ہیں۔

محمد مالک نے کہا کہ شہباز گل کی ضمانت کے کیس کے دوران اطہر من اللہ نے پانچ چھ سوالات ایسے کیے جو اب ملزم کا وکیل پراسیکیوٹر سے نچلی عدالت میں کرے گا۔ یعنی آپ بغاوت کیس میں شہباز گل کے ٹرائل کے دوران انکا وکیل دفاع میں سوالات کرے گا اور ساتھ میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی جانب سے دیے گئے ریمارکس کا حوالہ بھی دے گا، محمد مالک نے سوال کیا کہ کیا چیف جسٹس کو زیب دیتا تھا کہ وہ ایسے ریمارکس دے کر اپنے ماتحت جج کا مائنڈ پہلے سے ہی بنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا ان ریمارکس کے بعد فیئر ٹرائل ممکن ہے، شہباز گل کا کیس انتہائی فضول ہے جس میں کوئی لیگل میرٹ نہیں ہے۔

محمد مالک نے اطہر من اللہ کے ان ریمارکس کا بھی حوالہ دیا جن میں انہوں نے کہا کہ پاک فوج کیا اتنی کمزور ہے کہ شہباز گل کی گفتگو سے سے کمزور پڑ جائے گی اور اس میں بغاوت ہو جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ان کی عدالت بغاوت کے الزام کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ محمد مالک نے کہا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر آئین میں سے بھی بغاوت کی دفعات نکال دی جائیں۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے بغاوت پر اکسانے کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے گرفتار پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کی ضمانت 5 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی تھی، عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہو جانے کے بعد ضمانت کی منظوری کے احکامات جاری کیے اور ریمارکس دیئے کہ جب تک ٹھوس مواد نہ ہو کسی کو ضمانت سے محروم نہیں کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے حکومتی وکیل سے سوال کیا کہ کیا بغاوت کا مقدمہ درج کرنے سے پہلے حکومت کی اجازت لی گئی تھی؟ شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ اسکی اجازت نہیں لی گئی تھی، لیکن بغاوت کیس کے سپیشل پراسیکوٹر راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ بغاوت کا مقدمہ درج کرنے سے پہلے باقاعدہ اجازت لی گئی تھی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی سے دریافت کیا کہ کیا تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ شہباز گِل نے کسی فوجی سے بغاوت کے لیے رابطہ کیا؟ کیا آرمڈ فورسز کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی؟ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آرمڈ فورسز ایسے کسی لاپرواہ بیان سے متاثر ہو سکتی ہیں؟ پھر جج صاحب نے یہ بھی فرما دیا کہ بغاوت کے الزام کو تو میری عدالت مانتی ہی نہیں۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ اس سے پہلے بھی اوپر تلے تحریک انصاف اور عمران کے حق میں عدالتی فیصلے دینے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button