آڈیو لیکس منظر عام پر لانے کی ٹائمنگ معنی خیز کیوں ہے؟


وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کی خفیہ آڈیو ریکارڈنگز منظر عام پرلانے کی ٹائمنگ کو اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ سب ایک ایسے موقع پر ہوا جب نئے آرمی چیف کے انتخاب کی بحث عروج پر ہے اور شہباز شریف مختلف عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کے بعد لندن میں نواز شریف کے پاس موجود تھے اور مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحق ڈار کو نیا وزیر خزانہ بنانے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا۔

وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو لیکس سامنے آنے کے بعد اب تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ خفیہ عناصر کے پاس بڑی تعداد میں وڈیو کلپس بھی موجود ہیں جو ڈارک ویب پر برائے فروخت ہیں۔ لیکن فواد چوہدری کے اس دعوے کے باوجود اب تک ڈارک ویب پر خفیہ ویڈیو اور آڈیو لیکس کی برائے فروخت موجودگی کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ان آڈیو کلپس میں کی گئی گفتگو کا ڈیٹا وزیراعظم کے دفتر سے ہیک کیا گیا جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ وزیر اعظم ہاؤس اب بھی حکومت مخالف جاسوسوں کے نشانے پر ہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے وضاحتوں اور تردیدوں کا سلسلہ شروع ہے۔ لیکن حکومتی ترجمان خاصے پراعتماد ہیں کہ اب تک لیک ہونے والی آڈیوز میں حکومت کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اس حوالے سے جو بھی سکینڈل کھڑا کیا گیا وہ پنکچر ہو چکا۔ دوسری طرف عمران خان نے ان لیک ہونے والی آڈیو کلپس سے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش شروع کر دی ہے تاکہ حکومت گرانے اور فوری الیکشن کروانے کا ایجنڈا آگے بڑھایا جا سکے۔ عمران نے اپنے رفقاء کو ہدایت کی ہے کہ اس صورتحال پر جارحانہ انداز اختیار کیا جائے جس کا آغاز خود انہوں نے کرک کے جلسہ عام میں اپنی تقریر کے دوران کیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والےاہم ترین اجلاسوں کی ریکارڈنگ لیک کیے جانے کی ٹائمنگ اہم ہے اور اسے ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت وائرل کیا گیا ہے۔ انکے مطابق آڈیوکلپس ایک ایسے موقع پر سامنے لائی گئی ہیں جب وزیراعظم شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے بعد لندن پہنچے تھے۔ انہوں نے بین الاقوامی فورمز اور دیگر مصروفیات میں شرکت کرکے دنیا کے عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں، جس سے ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا تھا۔ لندن میں شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے ساتھ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے بھی مشورہ کیا تھا لیکن جو بھی فیصلہ ہوا اسے پبلک نہیں کیا جا رہا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کے آرمی چیف بننے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا اور اسی وجہ سے حکومت کو گرانے کی سازشوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔ عمران خان نے حکومت اور فوجی قیادت میں اختلافات پیدا کرنے کے لیے جنرل باجوہ کے عہدے میں توسیع کا فارمولہ دیا تھا لیکن وہ بھی نہیں چل پایا۔ لہذا اب وزیر اعظم کے دفتر میں موجود فیض حمید کے جاسوسوں نے آخری حربے کے طور پر شہباز شریف کی آڈیو ریکارڈنگز لیک کروا دی ہیں۔

لیک ہونے والے ایک آڈیو کلپ میں مفتاح اسماعیل کی جگہ وزیر خزانہ بننے والے اسحاق ڈار کی کردار کشی بھی کی گئی ہے جس سے کئی سوال اٹھتے ہیں۔حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب جب کہ عمران خان کو یقین ہو چکا ہے کہ موجودہ حکومت نئے الیکشن اپنی معیاد پوری کرنے کے بعد ہی کروائے گی اور فیض حمید بھی نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے تو وہ مایوسی کا شکار ہوکر حکومت پر آخری حملے کر رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد عمران کی تمام تر سازشیں دم توڑ جائیں گی اور ان کا اپنا احتساب شروع ہو جائے گا۔

Related Articles

Back to top button