اپوزیشن کا لانگ مارچ حکومت مخالف ہوگا یا اسٹیبلشمنٹ مخالف؟


اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت کے خلاف 26 مارچ کو اسلام آباد لانگ مارچ شروع کرنے کے اعلان کے باوجود ایسا معلوم ہوتا یے کہ اپوزیشن اپنی حکومت مخالف حکمت عملی پر کنفیوژن کا شکار ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ لانگ مارچ حکومت کے خلاف ہو گا یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے؟ پہلے اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ عمران ایک کٹھ پتلی ہے اور اپوزیشن کی تحریک بنیادی طور پر اس کو لانے والوں کے خلاف ہے۔ تاہم اب اس حوالے سے سے اپوزیش اتحاد کی تینوں بڑی جماعتوں کے موقف میں تبدیلی نظر آتی ہے اور انکا اصرار یے کہ ان کی تحریک عمران خان کے خلاف ہے۔ اور تو اور، اب تو مولانا فضل الرحمن نے اب اس بات کی تردید کر دی ہے کہ وہ پنڈی کی طرف لانگ مارچ کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔

ان حالات میں سیاسی تجزیہ کار یار بھی کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اپوزیشن دراصل کرنا کیا چاہتی ہیں۔ ناقدین کانکہنا یے کہ اپوزیشن جب تک جمہوریت اور آئین کی حتمی بالادستی کیلئے اپنے اہداف واضح نہیں کرے گی، وہ یونہی کنفیوژن کا شکار ہوکر ناکام و نامراد ہوتی رہے گی اور طاقت کے اصل کھلاڑی اپنے کٹھ پتلیوں کی آڑ میں اقتدار پر مسلسل قابض رہیں گے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار اعزاز سید کا اس حوالے سے کہنا یے کہ 4 فروری کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس میں لانگ مارچ کا فیصلہ کرنے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں ابھی تک اپنے اہداف کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ انکے مطابق 4 فروری کے اجلاس کی کارروائی کے دوران آصف علی زرداری بولے کہ، ’’میں نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے نکالا اور اختیارات صدر سے لے کر پارلیمنٹ کو دیے، ’انکی‘ مخالفت کے باوجود 18ویں ترمیم منظور کروائی، میرے خیال میں اب ہمیں پنجاب میں بزدار حکومت اور مرکز میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنی چاہئیں۔ اعزاز سید کے مطابق جب آصف زرداری نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں وڈیو لنک کے ذریعے یہ باتیں کیں تو اجلاس کی صدارت کرن والے مولانا فضل الرحمٰن سمیت اکثر شرکا کے چہروں پر مایوسی چھا گئی۔ وڈیولنک پر نظر آتے نواز شریف کا چہرہ بھی اتر گیا۔ اجلاس میں مریم نواز، بلاول بھٹو سمیت دو سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور دیگر جماعتوں کے سرکردہ رہنما شریک تھے۔

اعزاز سید کے مطابق آصف علی زرداری کی گفتگو کے بعد مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی بولے، اگر آج ہم لانگ مارچ کی تاریخ بھی نہ دے سکے اور ماضی کے ناکام تجربے کے باوجود تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر ہمیں حکومت مخالف تحریک پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لینا چاہئے۔
نوازشریف نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ بولے، وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اعداد کم ہو جایئں یا اس تحریک کی حمایت اسٹیبلشمنٹ کرے، مجھے یہ دونوں قبول نہیں۔
میاں صاحب بولے کہ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے سینیٹ الیکشن میں کوئی دلچسپی نہیں، میں تو سمجھتا ہوں کہ ہمیں اسمبلیوں سے استعفے دے دینے چاہئے۔ تاہم میرے کچھ ساتھیاں کے خیال میں ہمیں سینیٹ میں حصہ لینا چاہئے اس لئے میں راضی ہوا ہوں۔

اس موقع پر جمعیت علمائے پاکستان کے شاہ اویس نورانی نے بھی خوب گرہ لگائی اور پیپلز پارٹی کا نام لئے بغیر بولے کہ جن لوگوں کو گلگت کے الیکشن میں حکومت کی آس لگوائی گئی تھی ان کا کیا بنا؟
انہیں تو ناشتے کے لئے دو ابلے ہوئے انڈے بھی نہ ملے۔ اعزاز سید کے مطابق اپوزیشن اتحاد کی کم و بیش تمام جماعتیں پیپلزپارٹی کے موقف کو شک کی نظر سے دیکھتی رہیں۔ لیکن اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں تین باتیں طے ہوگئیں۔

اول یہ کہ اپوزیشن جماعتیں ملکر سینیٹ انتخابات میں حصہ لیں گی لہذا سینیٹ کی حد تک کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا۔ اعداد و شمار کی روشنی میں فی الحال حکمران جماعت تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں باقی جماعتوں پر عددی اکثریت حاصل ہوجائے گی لہذا حکومت کو سینیٹ میں قانون سازی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔

دوئم یہ کہ اپوزیشن جماعتیں 26مارچ کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں گی مگر وہ اس بات پر کنفیوژڈ ہیں کہ انہیں اسلام آباد میں دھرنا دینا چاہئے بھی یا نہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے دھرنے کا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر حکومت کے اعصاب مضبوط ہوں تو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود بھی دھرنا کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لہذا لگتا یوں یے کہ اپوزیشن کا لانگ مارچ قافلوں کے دو تین یوم میں اسلام آباد پہنچ کر ایک بڑا جلسہ کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ اس سے نہ تو حکومت گھر جائے گی اور نہ ہی مرکز یا صوبوں میں کوئی تبدیلی آئے گی۔

سوئم یہ کہ اپوزیشن جماعتیں ابھی تک یہ بنیادی فیصلہ کرنے سے گریزاں ہیں کہ ان کا اصل ہدف کون ہے۔ غیر جمہوری اسٹیبلشمنٹ یا تحریک انصاف کی عمران خان حکومت۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے تو پیپلزپارٹی کی قیادت عمران حکومت کے خلاف۔ مولانا فضل الرحمٰن عمران حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں تو مریم نواز دونوں کو ایک دوسرے سے جڑا ہوا معاملہ قرار دیتی ہیں۔ سمت مگر کسی کو معلوم نہیں اور اگر معلوم ہے بھی تو کوئی منزل پر متحد ہوکر چلنے کیلئے تیار نہیں۔

اعزاز سید کے مطابق پاکستانی سیاست بھی عجب ہے۔ یہاں جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ اپوزیشن اتحاد کے مشترکہ فیصلے اپنی جگہ ہر جماعت کی طرف سے طاقتور حلقوں سے مک مکا یا ڈیل کرنے کی کوششیں بھی اپنی جگہ جاری ہیں۔ انکے مطابق بدقسمتی یہ ہے کہ ہر جماعت اپنے مفادات کو ہاتھ میں لے کر اپنا بھاؤ تاؤ کرنے پر تیار ہے۔ مسلم لیگ ن کے بانی نوازشریف جلاوطن ہیں اور صدر شہباز شریف گرفتار۔ اگر مسلم لیگ ن کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ایسی ڈیل ہوجائے جس میں مریم نواز کا مستقبل میں کوئی کردار نکل آئے تو ڈیل کروانے والے چوہدری نثار کی پارٹی میں باعزت واپسی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔

ن لیگ کی طرح پیپلز پارٹی بھی فوری طور پر اپنے مقدمات سے جان چھڑانے کے لئے بھاؤ تاؤ کررہی ہے۔ کہیں پر کچھ انڈراسٹینڈنگ ہوچکی ہے۔ جسکا اشارہ قومی احتساب بیورو کی پیپلزپارٹی پرہتھ ہولا رکھو کی پالیسی سے نظر آرہا ہے۔ پارٹی چاہتی ہے کہ ان کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس اسلام آباد سے سندھ میں انکے ہوم گراؤنڈ پر منتقل کردئیے جائیں۔ اعزاز سید کے مطابق
یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور نیب نے اس معاملے پر جو قانونی جواب تیار کیا ہے اس میں پیپلزپارٹی کی درخواست پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ جواب جب سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائیگا تو سب کی آنکھیں کھل جائینگی۔ اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خلاف حکمت عملی پر کنفیوژن کی حکمرانی ہے۔ اپوزیشن جب تک جمہوریت اور آئین کی حتمی بالادستی کیلئے اپنے اہداف واضح نہیں کرے گی ناکام و نامراد ہوتی رہے گی اور طاقت کے اصل کھلاڑی اقتدار پر مسلسل قابض رہیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button