اگرمرنے والا پولیس کانسٹیبل کی بجائے مونس الٰہی ہوتا؟


مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے عمرانڈو سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سوشل میڈیا پر عوامی چھترول کا شکار ہو گئے ہیں۔ اسکی وجہ موصوف کی جانب سے لاہور میں پی ٹی آئی سے وابستہ ایک ریٹائرڈ یوتھیے میجر کے ہاتھوں قتل ہونے والے پولیس کانسٹیبل کو شہید تسلیم نہ کرنا ہے۔ یوتھیے میجر نے گھر پر چھاپہ مارنے والے پولیس کانسٹیبل کو گیٹ پر ہی گولی مار کر قتل کر دیا تھا لیکن پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ پولیس والا چونکہ گھر میں گھس رہا تھا لہذا میں اسے شہید نہیں مانتا۔ تاہم سوشل میڈیا پر ناقدین نے پرویز الٰہی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں اور ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ مرنے والا پولیس کانسٹیبل اگر مونس الٰہی ہوتا تو پھر انکے کیا جذبات ہوتے کیونکہ چودھری ظہور الٰہی سمیت انکے بزرگ بھی پولیس کی نوکری کرتے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ ماڈل ٹائون لاہور کے سی بلاک 112 میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے میجر ساجد کے گھر پولیس گئی تھی تاکہ انہیں وارننگ دی جا سکے۔ لیکن موصوف نے اپنے بیٹے کے ساتھ چھت پر چڑھ کر سیدھی فائرنگ کردی۔ ایک گولی کانسٹیبل کمال احمد کو سینے پر جا لگی۔ اسے طبی امداد کے لیے لاہور جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج دم توڑ گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کانسٹیبل کمال احمد ماڈل ٹاؤن میں تعینات تھا۔ ڈی آئی جی آپریشنز سہیل چوہدری نے ہے کہ فائرنگ کے الزام میں گھر کے مالک ساجد اور اس کے بیٹے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے شہید اہلکار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے بیان میں پولیس کو قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کا حکم دیا۔انہوں نے واقعے کی تفصیلی رپورٹ آئی جی پولیس سے طلب کرلی ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ بےگناہ پولیس اہلکار کمال احمد کے سینے میں لگی گولی ثبوت ہے کہ عمران خان دہشتگرد ہے، کمال احمد کا قاتل عمران خان، شیخ رشید اور اس کے حواری ہیں۔ لیکن جب کچھ صحافیوں نے پرویز الٰہی سے مقتول کانسٹیبل کے بارے میں سوال کیا اور اس کے نام کے ساتھ شہید لگایا تو سپیکر پنجاب اسمبلی بھڑک اٹھے اور بولے کہ ’شہید کس بات کا۔ کیا وہ کوئی ڈاکو پکڑنے گئے تھے؟‘ ان کا کہنا تھا کہ شہید وہ پولیس والا ہوتا ہے جو ڈاکوؤں اور چوروں کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا جاتا ہے۔ ‘پیجا ٹوچ’ کہلانے والے پرویز الٰہی پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے انہیں ایک بے حس اور موقع پر سیاستدان قرار دیا ہے۔ مرحوم پولیس والے کے ایک رشتہ دار جمیل نے سوشل میڈیا پر پرویز الٰہی کو یاد دلایا کہ کانسٹیبل کمال احمد کے پانچ کم سن بچے ہیں جن میں بڑی بیٹی کی عمر 11 برس جبکہ چھوٹا بیٹا صرف آٹھ ماہ کا ہے۔ اس نے پوچھا کہ اب کمال کے ان بچوں بچوں کی پرورش کون کرے گا۔ جمیل نے پرویزالٰہی سے سوال کیا کہ اگر گولی کھانے والا کمال نہیں بلکہ مونس الٰہی ہوتا تو موصوف کے کیا خیالات ہوتے ہیں؟

طیب ملک نامی صارفین نے اپنے تبصرے میں پرویز الٰہی کے بیٹے رکن قومی اسمبلی مونس الٰہی کو مینشن کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ اپنے والد صاحب کی اصلاح کریں اور کوئی عقل اور تمیز سکھائیں کیونکہ وہ انہی کے کہنے پر چلتے ہیں۔ اس نے پولیس کانسٹیبل کے بچوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’شہید کے پانچ کم سن بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے کے بجائے ان کی توہین اور شہید کو شہید ماننے سے ہی انکار کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔‘

متعدد سوشل میڈیا صارفین نے پولیس فائرنگ کو قتل کرنے کے ذمہ داروں کو پی ٹی آئی رہنما کے طور پر شناخت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے دو افراد میں سے ایک پی ٹی آئی کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر رہا ہے۔ وہ پہلے بھی غنڈہ گردی اور فائرنگ کے کئی واقعات میں ملوث رہا ہے لیکن بزار حکومت نے کبھی بھی اس کے خلاف کائی سخت کاروائی نہیں ہونے دی تھی۔

Related Articles

Back to top button