اگر صحافی کے اغوا میں فوجی ملوث ہے تو کورٹ مارشل ہو گا


چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگر برسوں سے لاپتہ صحافی مدثر نارو کے اغوا میں کوئی فوجی ملوث ہے تو اسکا کورٹ مارشل کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر 9 ستمبر تک مدثر نارو کا سراغ نہ لگایا گیا تو وہ وزیر اعظم شہباز شریف کو عدالت طلب کرنے پر مجبور ہوں گے۔

4 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر جبری گمشدگیوں کے واقعات میں فوج کا کوئی اہلکار ملوث ہے تو اس کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’جب سکیورٹی اداروں پر اس طرح کے الزامات لگتے ہیں تو اس سے ملکی سلامتی پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ مسلح افواج پر اس طرح کی کارروائیوں میں شامل ہونے کا الزام بھی کیوں لگے کیونکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے پرویز مشرف کا نام لیے بغیر کہا کہ سابق چیف ایگزیکٹو نے اپنی کتاب میں خود اعتراف کیا کہ لوگوں کو اغوا کرنا ریاست کی پالیسی تھی۔ اس شخص نے پاکستان پر 9 برس تک حکومت بھی کی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدثر نارو کے واقعے سے متعلق ملک کی سب سے معتبر خفیہ ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے لیکن اس کے باوجود منتخب حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح جبری گمشدگیوں کے بارے میں منتخب حکومتوں کا ردعمل ہونا چاہیے تھا، ویسا نہیں ہے۔

سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وہ عدالت میں ثبوت پیش کریں گے کہ ریاست کی ایجنسیاں جبری گمشدگی میں ملوث ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے 2019 میں کہا تھا کہ تمام تو نہیں لیکن کچھ لاپتہ افراد ہمارے پاس ہیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ حکام کا کہنا تھا ہم نے جی ایچ کیو میں ایک سیل بنایا ہے اور ان افراد کو اس میں رکھا گیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی کے رہنما سے استفسار کیا کہ اس پر منتخب حکومت اور پارلیمان نے کیا کچھ کیا ہے؟ اطہر من اللہ نے فرحت اللہ بابر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ ان اداروں پر سویلین کنٹرول اور نگرانی نہیں۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی صرف حکومت کا ایک محکمہ ہے اور آئی ایس آئی وزیراعظم کے براہ راست کنٹرول میں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت پبلک آفس ہولڈرز کو اپنی ذمہ داری شفٹ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم کسی بات سے منع کرے تو وہ اسے ماننے کے پابند ہیں اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی کارروائی ہونی چاہیے۔‘ انھوں نے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کو بازیاب کروانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جن اداروں میں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اس دور کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے عدالت کو بتایا کہ کیبنٹ ڈویژن ان عدالتی احکامات پر عمل درآمد کر رہی ہے جس میں عدالت نے مشرف سے لے کر تحریک انصاف کی حکومت تک کے چیف ایگزیکٹو صاحبان سے اس حوالے سے بیان حلفی طلب کیا ہوا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیراعظم کو طلب کریں اور انھیں کہیں کہ عدالت کے سامنے وضاحت کریں۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کو بلانے کے علاوہ کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔

جبری گمشدگیوں کے بارے میں کام کرنے والی سماجی کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ نے بھی عدالت کو کہا کہ وزیر اعظم کو بلا کر ان کیمرا سماعت کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’جن افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، انکے عزیزوں کو بتائیں کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا نہیں۔‘ آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ان کے شوہر زندہ ہیں تو وہ کہاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بے شک اس معاملے کی ان کیمرا سماعت کریں اور ذمہ داروں کو بھی بلائیں۔

فرحت اللہ بابر کا عدالت میں کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے پہلے کمیشن کی رپورٹ بھی شائع ہو جائے تو بڑی بات ہے، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ انھیں پتا ہی نہیں کہ وہ رپورٹ ہے بھی یا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ آٹھ ہزار یا جتنے بھی لاپتہ لوگ ہیں ان کی بازیابی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سویلین کنٹرول کو مضبوط کس طرح کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے وہ عدالت سے استدعا کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو طلب کریں، بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم پیش ہو کر بتائیں کہ ان کی کیا مجبوریاں ہیں۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ بے شک یہ سماعت ان کیمرا رکھ لیں لیکن وزیراعظم کو بلائیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کیمرا کیوں؟ اگر بلانا ہے تو جو وہ کہتے ہیں لوگوں کو بھی پتا چلنا چاہیے۔ عدالت نے وزارت داخلہ کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جبری گمشدگیوں پر عملی اقدامات کیے جائیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر عدالت 9 ستمبر کو وزیر اعظم کو بھی طلب کر سکتی ہے۔

Related Articles

Back to top button