اگر وزیراعظم ہاؤس محفوظ نہیں تو وزیراعظم کیسے محفوظ ہیں؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ جس ملک میں وزیراعظم ہاؤس محفوظ نہیں وہاں وزیراعظم کس طرح محفوظ ہو سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ آڈیو اور ویڈیو لیک کے کھیل نے پورے نظام پر سوالات اُٹھا دیئے ہیں۔ جب وزیر اعظم ہاؤس ہی محفوظ نہیں رہا تو پھر قومی سلامتی کیسے محفوظ ہوگی۔ ایسے میں اگر قومی سلامتی یقینی بنانی ہے تو یہ سراغ لگانا اشد ضروری ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگز کون کروا رہا ہے؟ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ نام تبدیل ہوتے رہتے ہیں، کردار بدلتے ہیں، ادوار بدلتے ہیں مگر طریقہ کار وہی ہے۔ کبھی آڈیو لیک کر دو تو کبھی ویڈیو۔ اسکا بنیادی مقصد ’’سیاسی گند‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ لیک ہونے والی گفتگو شرم ناک ہو یا عبرت ناک، سوال یہ ہے کہ یہ سب کرنے والے کھل کر بتائیں آخر معاملہ کیا ہے؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ کہیں اندر کی لڑائی تو باہر نہیں آرہی؟

مظہر عباس کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ نیا نہیں۔ یہ 90ء کی دہائی کی بات ہے، ہمارے ایک دوست نے ایک آڈیو کیسٹ لاکر دی کہ یہ ’’بڑی خبر‘‘ ہے اور ایسی کئی کیسٹس موجود ہیں۔ یہ ٹیپس معروف بینکر یونس حبیب مرحوم کی مختلف سیاست دانوں کے ساتھ ’’ووٹ کے بدلے نوٹ‘‘ بارے گفتگو پر مبنی تھی۔ بعد میں یہ آڈیو گفتگو ایک بڑا سکینڈل بنی اور مہران بینک یا اصغر خان کیس کے طور پر سامنے آئی۔ لیکن اس سکینڈل کا انجام یہ ہوا کہ پیسے دینے والے اور لینے والے دونوں بچ گئے۔ ابھی حال ہی میں آڈیو لیک ہونے سے پہلے عمران خان نے چکوال اور رحیم یار خان کےجلسوں میں نامعلوم ’’آڈیو کالز‘‘ کا ذکر بڑے غصہ میں کیا اور اپنے سپورٹرز سے کہا ’’اب کال پر تمہیں کوئی دھمکی دے تو تم بھی اُسے دھمکی دو‘‘۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی نامعلوم کال کرتا ہوگا تو وہ ریکارڈ بھی کرتا ہوگا۔ ایسے میں کب کون سی کال لیک ہو جائے، کسے پتا۔ یہاں سیاست دان تو دور کی بات، ججز بھی ریکارڈنگز سے محفوظ نہیں ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس ملک قیوم کی مشہور زمانہ آڈیو آج بھی سیاسی بحث کا حصہ ہے، پھر نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو اور اسکے بعد سابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ویڈیو لیک نے خاصا ہنگامہ برپا کیا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ کل تک فون کالوں پر غصہ کرنے والے عمران خان اپنے لوگوں کو جوش دلا رہے تھے کہ ان کو جوابی دھمکیاں دو، مگر اب وہ شہباز شریف کی ایسی آڈیوز لیک ہونے پر خوش ہیں جن میں ایک سرکاری افسر وزیر اعظم شہباز شریف سے مریم نواز کے داماد بارے گفتگو کر رہا ہے۔ مظہر عباس سوال کرتے ہیں کیا اس کے بعد بھی کوئی کسر رہ جاتی ہے ریاست کی رٹ کے خاتمے کا اعلان کرنے میں۔ سینئر صحافی کہتے ہیں کہ ہر چھوٹے موٹے واقعات کا نوٹس لینے والے وزیراعظم شہباز شریف کیا یہ پتہ لگانے کی جرات کریں گے کہ ان ریکارڈنگز کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ماضی قریب میں پرویز الٰہی نے آصف زرداری اور نواز شریف کا ساتھ بھی ایک خفیہ فون کال کے بعد ہی چھوڑا تھا۔ جب پرویز الٰہی زرداری ہائوس سے مبارکباد وصول کرکے نکلے تب وہ پی ڈی ایم کے متفقہ اُمیدوار تھے۔ پھر اچانک ایک ’’کال‘‘ نے گاڑی کا رُخ بنی گالہ کی طرف موڑ دیا اور وہ پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ عمران نے جس شخص کی وجہ سے 2002 میں مشرف کا ساتھ چھوڑا اور اسے پنجاب کا سب سے بڑاڈاکو قرار دیا آج وہی ڈاکو انکا وزیر اعلیٰ بن کر پورا پنجاب چلا رہا ہے۔ واہ رے سیاست تیرے بدلتے رنگ کپتان۔

Related Articles

Back to top button