اگر 10 ووٹ شمار نہ کرنا غلط ہے تو 25 ووٹ کیوں شمار نہ ہوئے؟


وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں مسلم لیگ قاف کے دس ووٹ مسترد کئے جانے کے بعد اب ملک بھر میں ایک مرتبہ پھر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ووٹ کا فیصلہ ’پارلیمانی پارٹی‘ کا استحقاق ہے یا کہ ’پارٹی سربراہ‘ کا حالانکہ ماضی قریب میں تحریک انصاف کی جانب سے اپنے 20 منحرفین اراکین پنجاب اسمبلی کے خلاف دائر کردہ کیس میں سپریم کورٹ واضح رولنگ دے چکی ہے کہ یہ استحقاق پارٹی سربراہ کا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی زیربحث ہے کہ اگر سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں اسپیکر کی جانب سے سات ووٹ مسترد کیے جانے کے بعد عدالت کہتی ہے کہ وہ پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی تو پھر اب عدالتی مداخلت کیوں ہو رہی ہے؟

یاد رہے کہ 22 جولائی کو ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے ایک خط اور سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اُن کی جماعت کے تمام اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں پرویز الہی کو ڈالے گئے ووٹوں کو مسترد قرار دیا اور رولنگ دی ہے کہ پارٹی سربراہ کی منشا کے خلاف ووٹ نہیں دیا جا سکتا۔ ڈپٹی سپیکر کو لکھے گئے خط میں شجاعت نے اپنی جماعت کے اراکین کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ کے حق میں ووٹ دینے کی ہدایت کی تھی۔ ڈپٹی سپیکر نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا تذکرہ کیا ہے جو آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا اور جس میں قرار دیا گیا تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی اسی فیصلے کی بنیاد پر تحریک انصاف کے 25 اراکین صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے اور خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کامیاب جماعت بن پر اُبھری تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی اس رولنگ کے بعد یہ بحث دوبارہ زور پکڑ چکی ہے کہ کیا کسی پارٹی کا سربراہ اس نوعیت کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے یا یہ اختیار پارلیمانی پارٹی کو حاصل ہے۔ تاہم اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے کیا کہتا ہے۔آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمان کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ اس صورت میں کہ اگر رکن پارلیمان وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہو گا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے تاہم ریفرنس دائر کرنے سے پہلے پارٹی سربراہ منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا۔ اگر پارٹی کا سربراہ وضاحت سے مطمئن نہیں ہوتا تو پھر پارٹی سربراہ اعلامیہ سپیکر کو بھیجے گا اور سپیکر وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔ریفرنس موصول ہونے کے 30 دن میں الیکشن کمیشن کو اس ریفرنس پر فیصلہ دینا ہو گا۔

آرٹیکل 63 اے کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے ریفرنس کے حق میں فیصلہ آ جاتا ہے تو منحرف رکن ‘ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔’ رواں برس مئی میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے تین دو کے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا اور پارلیمان ان کی نااہلی کی مدت کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منحرف اراکین سے متعلق اس ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی تھی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔ بینچ کے ارکان جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے بنچ کے تین ارکان سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اقلیتی فیصلے میں لکھا کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے اپنے آپ میں ایک مکمل کوڈ ہے جو پارلیمان کے کسی رکن کی ‘ڈیفیکشن’ یعنی انحراف اور اس کے بعد کے اقدام کے بارے میں جامع طریقہ کار بیان کرتا ہے۔ بینچ کے ان ارکان نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ان کی رائے میں ’آئین کی شق 63 اے کی مزید تشریح آئین کو نئے سرے سے لکھنے یا اس میں وہ کچھ پڑھنے کی کوشش ہو گی اور اس سے آئین کی دیگر شقیں بھی متاثر ہوں گی، جو صدر نے اس ریفرنس کے ذریعے پوچھا تک نہیں ہے۔ اس لیے ایسا کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں۔‘

سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کا بنیادی حصہ ہیں اور ان میں عدم استحکام سے جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ کہ انحراف کسی سیاسی جماعت کو عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے اس لیے یہ کینسر کی طرح ہے اور اس کی مذمت ہونی چاہیے۔ سابق اٹارنی جنرل اور ماہر قانون عرفان قادر کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر پارٹی سربراہ کی ہدایت کے برعکس کوئی ووٹ دے گا تو وہ ممبر ناصرف ڈی سیٹ ہو گا بلکہ اس کا ووٹ بھی گنتی میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یاد رہے کہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ ایسے ممبر کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کا سپریم کورٹ ایسی کوئی شق آئین میں نہیں ڈال سکتی جو آئین میں لکھی ہوئی نہیں ہے لیکن جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ بھی کر دکھایا۔ انکا۔کہ ا تھا کہ اگر عدالت کی طرف سے ایسی کوئی شرط یا شق ڈالی جاتی ہے تو وہ قانون سازی کے مترادف ہو گا جس کا اختیار صرف پارلیمان کو ہے۔ لہذا اگر ماضی قریب میں 20 اراکین پنجاب اسمبلی کی نا اہلی درست تھی تو اب اسے غلط کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘اگر یہ مان لیا جائے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست تھا تو پھر اس کی روشنی میں اگر پارٹی کے سربراہ نے کہہ دیا ہے کہ اس کی پارٹی کے ممبران کسی مخصوص فرد کو ووٹ دیں یا ووٹ دینے سے اجتناب کریں مگر پارٹی ممبران اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں تو اس صورت میں ڈپٹی سپیکر کا یہ کہنا کہ ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے، درست ہے۔’ انھوں نے کہا کہ دونوں صورتوں میں اس معاملے کو سپریم کورٹ ہی میں جانا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت یہ چاہتی ہے کہ حمزہ شہباز کو ہٹایا جائے تو اس کا درست طریقہ بار بار ووٹنگ کے بجائے تحریک عدم اعتماد ہے۔

Related Articles

Back to top button