ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف بھی تمام الزامات سے بری


اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں صرف مریم نواز اور ان کے شوہر کی بریت نہیں ہوئی بلکہ مرکزی ملزم نواز شریف کو بھی کک بیکس اور کرپشن کے پیسوں سے لندن کے فلیٹ خریدنے کے الزام سے بری کر دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ احتساب عدالت نے قیاس اور مفروضے کی بنیاد پر یہ قرار دیا تھا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں۔عدالتی فیصلے سے جہاں نواز شریف کو اپنے خلاف کیسوں میں ریلیف ملنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے وہیں اسے عمران خان کے کرپشن مخالف بیانیے کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے سے نواز شریف کا یہ دعویٰ بھی سچ ثابت ہوگیا کہ انہیں ایک سازش کے تحت اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا اور نااہل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کو استعمال کیا۔

مریم نواز کی بریت پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مریم نواز کو بری کرنے کے فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ احتساب عدالت نے انہیں دباؤ میں سزا سنائی۔ انکا کہنا ہے کہ بظاہر احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم اور صفدر کو ہچکچاتے ہوئے سزا سنائی۔ اسی لیے اب احتساب عدالت سے بڑی عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور دیگر کو ایون فیلڈ کی جائیداد کرپشن، بے ایمانی یا غیر قانونی طریقوں سے حاصل کرنے کے الزام سے بری کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جج نے نواز شریف کو بھی کک بیکس یا کمیشن کے پیسوں سے لندن فلیٹس خریدنے کے الزام سے بری کر دیا ہے۔ اس سے پہلے احتساب عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ نواز شریف یہ نہیں بتا سکے کہ انہوں نے لندن کے فلیٹس کیسے خریدے۔ اس سوال کا جواب دینے میں ناکامی پر انہیں مجرم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، یہ فیصلہ سناتے ہوئے احتساب جج محمد بشیر نے ٹھوس شواہد پر انحصار کرنے کی بجائے قیاس آرائیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نواز شریف ہی لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں۔ لیکن اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ نیب یہ ثابت ہی نہیں کر پایا کہ لندن کے فلیٹس نواز شریف کی ملکیت ہیں لہذا جب ان پر الزام ہی ثابت نہیں ہوا تو مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کو کس طرح شریک ملزم قرار دیا جا سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرح نیب کی احتساب عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں یہ تسلیم کیا تھا کہ متعلقہ دستاویزات کی عدم موجودگی میں ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت کا تعین مشکل ہے۔ احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ استغاثہ کے اس قیاس پر انحصار کر رہی ہے کہ میاں نواز شریف ہی فلیٹس کے مالک ہیں۔ لیکن اپنے لطیفہ نما فیصلے میں احتساب عدالت نے اس بنیاد پر نواز شریف کو لندن فلیٹس کا مالک قراردے کرسزا سنادی کہ وہ 90 کی دہائی سے وہاں جا کر قیام کرتے ہیں۔ فیصلے کے آپریٹو حصے کے مطابق، نواز شریف کے بچے 90 کی دہائی کے اوائل میں مالی لحاظ سے مستحکم نہیں تھے اور ان کے پاس یہ فلیٹس خریدنے کیلئے کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ تاہم اسی دور میں مرکزی ملزم نواز شریف اور انکے والد لندن اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر تھے۔ اس طرح نیب اس مفروضے کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ فلیٹس کے اصل مالک نواز شریف ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کی اس منطق کو تسلیم نہیں کیا کہ اگر کوئی شخص کسی جگہ قیام کرتا ہے تو وہ اسکا مالک بھی ہو گا۔ مفروضے پر مبنی شواہد کی بنیاد عدالت نے پہلے تو یہ ثابت کیا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک ہیں اور پھر ان وسائل کی وضاحت نہ کرنے پر انہیں سزا سنائی جس سے انہوں نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف نے سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی دونوں کے سامنے لندن فلیٹس کی ملکیت سے انکار کیا تھا۔ ان کے بڑے بیٹے حسین نواز خاندان کے واحد فرد تھے جو ان فلیٹس کے مالک تھے اور انہوں نے جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے سامنے قطری خط سمیت دیگر دستاویزات پیش کیں تاکہ ان جائیدادوں کو حاصل کر کے اپنے ذرائع کو جواز بنایا جا سکے۔ تاہم، حسین نواز ٹرائل کورٹ یعنی احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور اس وجہ سے انہیں مفرور قرار دیا گیا۔ احتساب عدالت نے قیاس آرائیوں کی بنیاد پر نواز شریف کو ایون فیلڈ فلیٹس کا مالک قرار دیا تھا اور انہیں یہ بتانے میں ناکامی پر سزا بھی سنائی تھی کہ یہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئیں۔

Related Articles

Back to top button