بلوچستان میں حق دوتحریک شدت کیوں اختیارکرگئی؟


حکومت کیساتھ پچھلے برس ایک معاہدے کے باوجود اپنے مطالبات تسلیم نہ ہونے پر حق دو تحریک کے مظاہرین نے اب گوادر بندرگاہ سے متصل قومی شاہراہ کو احتجاجاﹰ بند کر کے دھرنا دیدیا ہے اور ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں، پچھلے چار ہفتوں سے دھرنا دینے والے مظاہرین کا موقف ہے کہ ترقی کے نام نہاد دعویدار حکمران بلوچستان میں زمینی حقائق پر توجہ دینے کے بجائے، ذاتی مفادات اور غیرملکی کمپنیوں کے مالی فوائد کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں اپنے مطالبات کے لیے سراپا احتجاج مظاہرین کے قائد مولانا ہدایت الرحمنٰ کا کہنا ہے کہ حکمران طبقے نے اگر ساحلی علاقوں کے عوام کے مطالبات منظور نہ کیے تو ان کے پاس گوادر بندگاہ کی بندش کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں رہے گا، انکا کہنا تھا کی جان بوجھ کر عوام کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نے ہمیشہ پرامن طور پر احتجاج کیا ہے، اور ویسے بھی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا جرم نہیں؟ مولانا کے مطابق ایک جانب بلوچ عوام اپنے جائز مطالبات کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جبکہ دوسری جانب حکمران انکے وسائل لوٹ کرعیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کے مطابق گوادر میں جاری احتجاج کے اس دوسرے مرحلے کے چار ہفتے مکمل ہو رہے ہیں مگر ابھی تک حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، انکا کہنا تھا کی بلوچستان کی پسماندگی اور دوچار بحرانوں پر حکومت اس وقت مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور عوامی مفادات کے معاملات کو جان بوجھ کر التوا کا شکار کیا جا رہا ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں کے عوام نے کوئی غیر قانونی مطالبہ نہیں کیا ہے، ان پسماندہ علاقوں کے عوام بنیادی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ حکمران ان تمام مسائل سے بخوبی آگاہ ہونے کے باجود سوائے فرضی دعوؤں کے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں۔

مولانا کا کہنا تھا کہ پچھلے برس احتجاجی تحریک کے دوران حکومت نے جو وعدے کیے تھے انہیں تاحال عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے۔ دھرنا مطاہرین نے حکومت کو جو مطالبات پیش کیے ہیں، ان میں بلوچستان کی سمندری حدود میں غیرقانونی ماہی گیری کو روکنا اور لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو منظرعام پرلانا سر فہرست ہے۔

ان علاقوں میں چونکہ بے روزگاری بہت ہے، اسی لیے اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش سرحدی تجارت سے وابستہ ہے۔ مظاہرین نے یہ مطالبہ بھی پیش کیا ہے کہ حکومت ساحلی علاقوں کے عوام کو سرحدی تجارت میں خصوصی رعایت دے اور وہاں منشیات کے بڑھتے ہوئے کاروبار کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

یاد رہے کہ گوادر میں گزشتہ برس بھی حق دو تحریک کی کال پر بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔ ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس احتجاج میں ایک لاکھ سے زائد لوگ شریک ہوئے تھے۔ گوادر میں حق دو تحریک کی کال پر ہونے والا طویل احتجاجی دھرنا وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد ختم کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں وہ اپنے وعدوں سے پھر گئے۔

Related Articles

Back to top button