تین اہم اداروں کے انکار کے بعد الیکشن کیسے ہوں گے؟

فوج ، وفاقی وزارت خزانہ اور لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب ، خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے سے معذرت کر لی ہے،جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی مایوسی میں شدت آ گئی ہے ،پی ٹی آئی نے اس حوالے سے اتحادی حکومت سمیت ملک کے دوسرے اہم اداروں پر دباؤ بڑھانے کے لئے ان کے خلاف بیان بازی اور پریس کانفرنسوں کا نیا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ فوج اندرونی سیکورٹی میں مصروف ہے، الیکشن کیلئےاہلکار نہیں دے سکتے، وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ معاشی بحران اور خسارے کا سامنا ہے، اضافی ضمنی گرانٹ کا مطالبہ موخر کیا جائے، جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے الیکشن کمیشن کو خط میں بتایا کہ پنجاب میں سوا 13 لاکھ سے زائد کیسز زیرالتوا ہیں، عدالتی افسران کی فراہمی سےمقدمات کا التوا مزید بڑھ جائیگا۔
معلوم ہوا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور لا ء اینڈ آرڈر کے سنگین مسائل کے پیش نظر وزارت دفاع نے آگاہ کیا ہے کہ انتخابات میں فوج اور رینجزر کو پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات نہیں کیا جا سکتا تاہم حساس علاقوں میں کوئیک ریسپانس فورس موجود رہے گی ، ایک اور خبر کے مطابق جی ایچ کیو کی جانب سے وزارت داخلہ کو مراسلہ موصول ہوا ہے۔جس میں جی ایچ کیو نے مؤقف اختیار کیا کہ قومی اسمبلی کے 64 حلقوں اورصوبوں میں انتخابات کےلیے اہلکاروں کی تعیناتی ممکن نہیں ہے۔صرف راجن پورمیں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب کےلیے پنجاب رینجرزدوسرے حصارمیں موجود رہے گی۔ خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے ضمنی اورصوبوں میں عام انتخابات کےلیے پاک فوج اوررینجرزکی تعیناتی کی درخواست کی تھی۔جی ایچ کیو نے جواب دیا کہ سیکیورٹی اہلکاردہشت گردی کے خدشے کے پیش نظرملک کی اندرونی اوربارڈرسیکورٹی پرمامورہیں اور سیکورٹی اہلکار27 فروری سے 3 اپریل تک ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری میں مصروف ہوں گے۔
دوسری طرف وزارت خزانہ نے آگاہ کیا ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کیلئے 12 ارب روپے دیئے جا سکتے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کو 60 ارب روپے سےزیادہ انتخابی اخراجات کی ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے تحریری طور پر الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا ہے کہ چیف جسٹس کی ہدایت پر وہ لیٹر تحریر کر رہے ہیں ،عدالتی افسروں کو انتخابات میں تعینات نہیں کیا جا سکتا ، چیف الیکشن کمشنر نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کی عدلیہ سے تقرری کیلئے رابطہ کئے تھے اب تک ہونے والے عام انتخابات عدالتی افسروں کی نگرانی میں ہوتے رہے ہیں اور انہیں اس مقصد کیلئے خصوصی طور پر ٹریننگ بھی دی گئی ہے ۔وزرات خزانہ نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کیلئے اضافی گرانٹ کا مطالبہ موخر کرنے کی درخواست کی ہے ۔ وزارت خزانہ نے کہا کہ ملک کی معاشی صورت حال خراب ہے۔ الیکشن کمیشن سے درخواست ہے کہ وسیع تر قومی مفاد میں اضافی ضمنی گرانٹ کا مطالبہ موخر کرے۔
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر ضمنی الیکشن کیلئے 20 ارب روپے ضمنی گرانٹ اور آئندہ انتخابات کیلئے 14 ارب روپے سے زائد کی اضافی گرانٹ کی درخواست کی تھی۔ خیپر پختونخوا، پنجاب اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر ضمنی الیکشن کیلئے 20 ارب روپے ضمنی گرانٹ اور آئندہ انتخابات کیلئے 14 ارب روپے سے زائد کی اضافی گرانٹ کے حوالے سے وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن کو جوابی خط میں کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال خراب ہے۔ الیکشن کمیشن سے درخواست ہے وسیع تر قومی مفاد میں اضافی ضمنی گرانٹ کا مطالبہ موخر کرے۔ ملک کی معاشی صورت حال بہتر ہونے تک اضافی ضمنی گرانٹ کے مطالبے کو موخر کیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن اخراجات کیلئے 60ارب روپے سے زائد کی درخواست کی تھی۔ وزارت خزانہ کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے یہ مطالبہ 47 ارب روپے تک کم کیا۔ اب ای سی پی الیکشن انعقاد کیلئے 61 ارب روپے سے زاہد مانگ چکا ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کو لکھا گیا ہے کہ وہ اخراجات اور فارن ایکسچینج کی ضروریات کی تفصیلات فراہم کرے۔ حکومت غیر معمولی معاشی بحران اور مالی خسارے کا شکار ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کو سیلاب متاثرہ علاقوں کیلئے فنڈز فراہم کرنے ہیں اور مردم شماری کرانی ہے۔ اس صورت حال میں غیر طے شدہ اور بغیر بجٹ اخراجات سے اضافی معاشی بوجھ پڑے گا۔ ملک اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہے۔ اس پروگرام کے بہت سخت ا ہداف ہیں۔
سیاسی تجزیہ کا روں کا کہنا ہے کہ ملک کے تین اداروں کی جانب سے انتخابات کے فوری انعقاد میں معاونت سے انکار کو تحریک انصاف لا محالہ اپنے خلاف سازش قرار دے گی اور اس سے بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے گی اور سیاسی تناؤمزیدبڑھےگا۔