ثاقب نثار تاریخ کے متنازعہ ترین چیف جسٹس کیوں کہلائے؟

میاں ثاقب نثار کو ان کے داغدار ماضی کی وجہ سے ملک کا متنازعہ ترین چیف جسٹس سمجھا جاتا یے جن کا دور عدالتی فیصلوں سے زیادہ غیر عدالتی سرگرمیوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ اپنے متنازعہ دور میں ثاقب نثار نے نہ صرف نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا بلکہ بھائی لوگوں کے ساتھ مل کر عمران خان کو اقتدار میں لانے کا راستہ بھی ہموار کیا۔

ثاقب نثار بطور چیف جسٹس اپنا اصل کردار ادا کرنے کی بجائے غیر ضروری طور پر ادھر ادھر کے معاملات میں منہ مارتے رہے جیسا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈ کا قیام، ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائیاں، اہم سیاسی اور دیگر شخصیات سے سیکیورٹی واپس لینے کے احکامات، آبادی کنٹرول کرنے کے لیے کانفرنس کا انعقاد، ہسپتالوں کی صفائی وغیرہ۔ یہ ایسے کام تھے جوکہ براہ راست حکومت کے کرنے کے ہیں لیکن سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ان کا بوجھ بھی چیف جسٹس نے اپنے کندھوں پر اُٹھایا ہوا تھا۔

ان مسائل کے حل کے لیے زیادہ تر از خود نوٹسز کا سہارا لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے پاس از خود نوٹس ایک ایسا ہتھیار ہے جسے کسی بھی وقت کسی کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس قانون کے استعمال کے بارے میں وکلا کی رائے بھی منقسم ہے۔ جہاں انہوں نے بہت اہم مقدمات میں از خود سماعت کا اختیار استعمال کرتے ہوئے ان پر فیصلے کیے وہیں ان کے دور میں سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کم ہونے کی بجائے اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بعد اگر کسی چیف جسٹس نے از خود نوٹس کا سب سے زیادہ استعمال کرتے ہوئے انتظامی معاملات میں مداخلت کی ہے تو وہ خود ثاقب نثار تھے۔

اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ ماتحت عدلیہ کے ججوں سے بھی ان کا سلوک خبروں اور تبصروں کی زینت بنتا رہا، دورۂ سندھ کے دوران اُنھوں نے لاڑکانہ کی ایک بھری عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج گل ضمیر سولنگی کے ساتھ جو رویہ اپنایا وہ کئی دن تک ٹی وی چینلز اور ٹاک شوز پر زیرِ بحث رہا اور پھر اس کے نتیجے میں جج کا استعفیٰ بھی سامنے آیا۔جعلی اکاونٹس سے اربوں روپے بیرون ممالک منتقل کرنے کے مقدمے میں جسٹس ثاقب نثار بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کو مجبور کرتے رہے کہ وہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ایک ہزار ارب روپے دیں تو اُن کے تمام مقدمات نمٹا دیئے جائیں گے جبکہ اس کے برعکس ان کے دور میں سپریم کورٹ نیب کی طرف سے پلی بارگین کے طریقۂ کار کے خلاف بھی رہی اور عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ یہ قانون بدعنوانی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔

جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں صحافتی حلقوں میں یہ تاثر عام تھا کہ اُنھیں بھی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرح سستی شہرت کے حصول کے لیے میڈیا میں رہنے کا بہت شوق تھا۔ یہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے شعبۂ تعلقات عامہ کی طرف سے میڈیا کے نمائندوں کو ایسے ٹکرز بھیجے جاتے ہیں جیسے کوئی سیاسی جماعت یا تنظیم ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے رابطے میں رہتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کی انتظامیہ میاں ثاقب نثار کی پروٹوکول کی ڈیوٹی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹے کو بھی پروٹوکول ڈیوٹی دینے پر مجبور تھی۔ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے خلاف جتنے بھی فیصلے آئے وہ سب چیف جسٹس کے صاحبزادے نے اس گیلری میں بیٹھ کر سنے جو کسی بھی جج کی ریٹائرمنٹ کے بعد فل کورٹ ریفرنس کے لیے ان کے خاندان کے افراد کے لیے مختص کی جاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ماتحت ججوں کو احکامات دینے کے الزام کا سامنا کرنے والے میاں ثاقب نثار کی لاہور ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی بھی تب کے وزیر اعظم نواز شریف کی سفارش پر ہی ہوئی تھی۔ اقتدار سے بے دخلی کے بعد میاں ثاقب نثار کی طرف سے نواز شریف کو مسلم لیگ نواز کی صدارت سے ہٹائے جانے کے فیصلے پر احتساب عدالت میں گفتگو کرتے ہوئے جب میاں صاحب سے ثاقب نثار کے اس فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو اُنھوں نے جواب میں صرف حضرت علی کا ایک قول دہرایا تھا کہ ‘جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو’۔

اپنے دور میں بطور چیف جسٹس فوج کے سیاسی کردار پر تنقید کو بھی فوج دشمنی گردانتے تھے۔ اسی لیے جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تو بحیثیت چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل، ثاقب نثار نے اس کا فوری نوٹس لیا اور ججز کے خلاف پاکستان کی عدالتی تاریخ کی مختصر ترین کارروائی کرنے کے بعد شوکت صدیقی کو ان کے عہدے سے برخاست کر دیا۔ لیکن کوئلوں کی دلالی کرتے ہوئے بابر رحمتے نے اپنے منہ پر جو کالک ملی تھی اسکی سیاہی یہ تازہ سکینڈل سامنے آنے کے بعد مزید گہری ہو گئی ہے۔

Related Articles

Back to top button