جسٹس بندیال اور جسٹس اعجاز ڈنڈی مارتے پکڑے گئے؟


حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے کیس میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ واضح طور پر ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ڈنڈی مارنے پر تُلا ہوا ہے حالانکہ 2018 میں اسی بینچ میں موجود جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کا سربراہ ہی اس کا پارلیمانی پارٹی سربراہ بھی ہوتا ہے اور حتمی فیصلہ اُسی کا ہوتا ہے، یہ فیصلہ تین رکنی بینچ نے 2018 میں نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دینے کے بعد بطور پارٹی صدر نااہل کرتے ہوئے دیا تھا۔
یاد رہے کہ بطور چیف جسٹس پاکستانی عدلیہ کے ماتھے کا بد نما داغ بننے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان کو نہ صرف صادق اور امین قرار دیا تھا بلکہ ان کے بنی گالہ گھر کی ناجائز تعمیر کو بھی جائز قرار دے دیا تھا۔ اسکے علاوہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ بھی ثاقب نثار کے دور میں ہوا تھا جنھوں نے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے کے لئے لیے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں پر مبنی ایک جے آئی ٹی بنا دی تھی اور جسٹس اعجاز الحسن کو اس کا نگران جج مقرر کر دیا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے جسٹس ثاقب نثار کی ایک آڈیو ٹیپ بھی لیک ہوئی تھی جس میں وہ احتساب عدالت کے ایک جج کو نواز شریف کو سزا سنانے کی ہدایات جاری کر رہے تھے۔ اب اسی ثاقب کو اپنا گرو ماننے والے عمرانڈو چیف جسٹس عمر بندیال، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کا کیس سن رہے ہیں حالانکہ پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتیں یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کا فل بینچ سنے۔ ان تین ججوں نے نواز شریف کو بطور پارٹی سربراہ نااہل کرتے اور بطور پارٹی صدر انکے تمام فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی کا ہیڈ جماعت کا نیوکلیس ہوتا ہے اور ساری پارٹی اسکے ارد گرد گھومتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اسی لیے کوئی تنظیمی یا پالیسی فیصلہ اسکی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ ججوں نے اپنے فیصلے میں مزید کہا تھا کہ اسی طرح چونکہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پارٹی ٹکٹ بھی جماعت کا سربراہ ہی دیتا ہے لہٰذا اس کے دیئے ٹکٹ پر منتخب ہوکر اسمبلی پہنچنے والوں کا پارلیمانی سربراہ بھی پارٹی ہیڈ ہی ہوتا ہے جسکی مرضی کے بغیر یا خلاف ووٹ بھی نہیں ڈالا جا سکتا۔
تاہم اب چیف جسٹس بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن نے نظریہ ضرورت کے تحت اپنا یہ فیصلہ بھلاتے ہوئے نہایت بے شرمی سے یہ موقف اپنا لیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں کس اُمیدوار کو ووٹ دینا ہے، یہ فیصلہ پارٹی ہیڈ نے نہیں بلکہ اس جماعت کی پارلیمانی پارٹی کرے گی اور وہ بھی صوبائی اسمبلی کی۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہوا کہ کسی فرد کو اپنی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جتوانے کے بعد اس پارٹی کا صدر بے اختیار ہو جاتا ہے اور اس کا بنایا ہوا رکن اسمبلی پارٹی ڈسپلن سے آزاد ہو کر ووٹ دینے سمیت تمام فیصلے کرنے کے لیے بار اختیار ہو جاتا ہے۔
یاد رہے کی جسٹس بندیال اور جسٹس اعجاز نے 23 جولائی کو حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے تھے کہ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے قاف لیگ کے 10 ووٹ ووٹ پرویز الہی کے حق میں شمار نہ کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے لیکن عمران خان کی محبت میں ریمارکس دیتے ہوئے ججز بھی بھول گئے کہ 17 مئی 2022 کو انہوں نے صدر عارف علوی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر ایک صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ کوئی بھی رکن اسمبلی اپنے پارٹی سربراہ کی ہدایات کے برعکس ووٹ نہیں ڈال سکتا اور ایسا کرنے والے کا نہ صرف ووٹ شمار نہیں ہوگا بلکہ وہ ڈی سیٹ بھی ہو جائے گا۔
ان حقائق کے پیش نظر حمزہ شہباز کے وکلا کا یہ سوال نہایت اہم ہے کہ اگر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خط کی بنیاد پر 25 ممبران پنجاب اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں کیا جاتا اور انہیں ڈی سیٹ کر دیا جاتا ہے تو پھر قاف لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے خط کو تسلیم کرنے کی بجائے ان کی پارٹی کے 10 منحرف اراکین کے ووٹ پرویز الہیٰ کے حق میں کیسے شمار ہو سکتے ہیں؟ یاد رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے عمران خان کی خواہش پر عارف علوی کی جانب سے دائر صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے جسٹس بندیال بینچ نے تین دو کے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ پارٹی کے منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا اور پارلیمنٹ ان کی نااہلی کی مدت کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے، ریفرنس کی سماعت پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی تھی جس میں چیف جسٹس عمر بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔
لیکن بینچ کے دو معزز ارکان جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے باقی تین ارکان سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے خود میں ایک مکمل کوڈ ہے جو کسی رکن پارلیمینٹ کی ‘ڈیفیکشن’ یعنی انحراف اور اس کے بعد کے اقدام کے بارے میں جامع طریقہ کار بیان کرتا ہے، بینچ کے ان ارکان نے اپنے فیصلے میں لکھا تھس کہ ان کی رائے میں ’آئین پاکستان کی شق 63 اے کی مزید تشریح آئین کو نئے سرے سے لکھنے یا اس میں کچھ اور پڑھنے کی کوشش ہو گی جس سے آئین کی دیگر شقیں بھی متاثر ہوں گی، حالانکہ صدر نے اس ریفرنس کے ذریعے ایسا کچھ نہیں پوچھا۔ اس لیے ایسا کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں۔ سپریم کورٹ آئین کی تشریح تو کرسکتی ہے لیکن اس میں ترمیم نہیں کرسکتی۔
دوسری جانب جسٹس بندیال اور انکے ساتھی ججوں نے ایک مخصوص ایجنڈے پر چلتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت بظاہر یہ ترمیم کر ڈالی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اب سپریم کورٹ کے عمرانڈو ججز دو ماہ قبل دیے گئے اپنے ہی فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے اس کی نئی تشریح کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، گویا جج نہ ہوئے، دلال ہوئے۔

Related Articles

Back to top button