جسٹس بندیال کا عمرانڈو پن ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا


سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین ججوں کے مابین بڑھتے ہوئے اختلافات ایک مرتبہ پھر موضوع بحث بن گئے ہیں جس کی بنیادی وجہ جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے کی جانے والی مسلسل غلط بیانی اور اپنایا جانے والا آمرانہ رویہ ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ یکسر بھلاتے ہوئے کہ وہ سپریم کورٹ کے سربراہ ہیں پچھلے دنوں ایک عدالتی فورم پر بھر پور سیاسی تقریر کرتے ہوئے اپنے ساتھی ججوں اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدے داروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے پچھلے اجلاس میں عدالت عظمیٰ کے پانچ ججوں کی تقرری کا معاملہ اس لئے طے نہ ہو پایا کہ حمزہ شہباز کی جگہ پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے فیصلے کا رد عمل آیا۔ اب جسٹس بندیال کے اس الزام پر ردعمل دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین عمر عطاء بندیال اور کمیشن کے دیگر اراکین کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ نئے عدالتی سال کے آغاز کی تقریب میں جسٹس بندیال کے خطاب نے ہمیں مایوس کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم دونوں چیف جسٹس کے خطاب کے دوران خاموش رہے ہیں لیکن ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے ہماری رضا مندی سے تعبیر نہ کیاجائے۔ دونوں فاضل ججوں کی جانب سے لکھے خط میں بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی وغیرہ کو۔مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ غیر ضروری تنازعات سے گریز کریں اور قوم کے سامنے سپریم کورٹ کو ایک وحدت کی صورت میں پیش کریں، تاہم 12ستمبر 2022 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے عدالتی سال کی افتتاحی تقریب کے موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال کے خطاب نے ہمیں ششدر کر دیا، اس تقریب کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور اگلے عدالتی سال کے لئے تصور واضع کریں لیکن چیف جسٹس نے اس کی بجائے اپنے حالیہ فیصلوں کا دفاع کیا اور ان پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیا۔

یاد رہے عمر عطا بندیال نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مارچ 2022 سے ہونے والے سیاسی واقعات کی وجہ سے سیاسی مقدمات عدالتوں میں آئے، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ پرججز کی مشاورت سے ازخود نوٹس لیا گیا اور 5 دن سماعت کرکے رولنگ کو غیرآئینی قراردیا اور فیصلہ بھی 3 دن میں سنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی کے کیس میں دوست مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے پر سیاسی جماعتوں نے سخت ردعمل دیا لیکن اس کے باوجود میں نے تحمل کا مظاہرہ کیا، انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہوا، اس مقدمے میں وفاق نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جو قانون کے مطابق نہیں تھی جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کردار بھی جانبدارانہ رہا۔ ان کا کہنا تھا اس کیس کے فیصلے کا ردعمل ججز تقرری کے لیے منعقدہ اجلاس میں سامنے آیا، جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں 5 قابل ججز کو نامزد کیا گیا تھا، لیکن نامزدگیوں کے حق میں 4 اور مخالفت میں 6 ووٹ آئے۔ بندیال کا کہنا تھا وفاق نے وزیراعلیٰ پنجاب والے کیس کے فیصلے پر ردعمل جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں دیا، لہٰذا میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ ردعمل عدلیہ کے احترام کے زمرے میں آتا ہے؟

یاد رہے کہ جسٹس بندیال کی جانب سے حمزہ شہباز کی جگہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا فیصلہ سخت عوامی تنقید کی زد میں آیا تھا اور بندیال اور انکے دو دیگر ساتھیوں کو عمرانڈو ججز قرار دے دیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر تو جسٹس بندیال کو تحریک انصاف کے جوڈیشل ونگ کا سربراہ بھی بنا دیا گیا تھا کیونکہ ان کے بھونڈے فیصلے کے مطابق کسی سیاسی جماعت کا مرکزی صدر اپنی صوبائی پارلیمانی پارٹی کے تابع کر دیا گیا تھا۔ تاہم اب سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے جسٹس بندیال کی سیاسی تقریر کا سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھول گئے کہ سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس پر مشتمل نہیں بلکہ اس میں تمام جج شامل ہیں، فاضل ججوں نے خط میں کہا ہے کہ چیف جسٹس نے زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ کیا ،جو کہ نہایت پریشان کن تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اس کے موجودہ اور متعدد سابق عہدیداروں کے بارے میں میں غیر ضروری اور اہانت آمیز باتیں کیں اور ان پر سیاسی پارٹی بازی کا الزام لگایا ہے، وجہ یہ ہے کہ انکی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے کیس میں فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ دونوں معزز ججوں نے اپنے خط میں لکھا کہ چونکہ چیف جسٹس نے انکی فل بینچ کی درخواست مسترد کر دی تھی، لہٰذا انہیں تقریر میں اپنے اس فیصلے کی صفائی دینے کی ضرورت نہیں تھی۔

جسٹس فائز اور جسٹس طارق نے لکھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین سپریم کورٹ سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ فیصلے دے، لیکن جو امر سب سے غیر معقول تھا وہ جوڈیشل کمیشن کے معزز ممبران کے حوالے سے الزامات لگانا ہے۔دونوں ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ چیف جسٹس کے بقول جوڈیشل کمیشن نے اپنے چیئرمین کی جانب سے سے تجویز کردہ امیدواروں کی منظوری نہیں دی۔ اسکے علاوہ انہوں نے وفاق کے نمائندوں یعنی وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل پر بھی الزام لگایا حالانکہ کسی بھی صورت میں جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ججز نے لکھا ہے کہ جسٹس بندیال چونکہ جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین ہیں اس لئے اس کے فیصلوں کی تعمیل کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ان پر آتی ہے، انہوں نے لکھا کہ جوڈیشل کمیشن کے تمام اراکین بشمول چیئرمین برابر ہیں اور چیف جسٹس کی ذمہ داری صرف اس کے اجلاس کی سربراہی کرنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے جسٹس بندیال کو یاد دلایا کہ جوڈیشل کمیشن نے 28 جولائی 2022 کے اجلاس میں انکے نامزد 5 امیدواروں کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کمیشن کے ارکان پر صرف اس لیے حملہ کریں کہ انہوں نے ان کے امیدواروں کی تائید نہیں کی۔ججوں نے لکھا کہ چیف جسٹس نے خود کہا ہے کہ آئینی اداروں کے احکامات کی خلاف ورزی اور ان پر حملہ نہیں کرنا چاہیئے، لیکن انہوں نے خود جوڈیشل کمیشن کے اکثریتی فیصلے کو تسلیم نہ کرکے اس کی خلاف ورزی کردی ہے۔ ججز نے لکھا کہ چیف جسٹس نے تقریر میں جو بھی کہا وہ ریکارڈ کے بھی خلاف تھا اس لیے انہیں مسلسل غلط بیانی سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے عہدے کی تقریم کا خیال کرنا چاہیے۔

Related Articles

Back to top button