جسٹس فائز عیسیٰ کی اپنے کیس کی سماعت ٹی وی پر لائیو نشر کرنے کی استدعا

حالیہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی طرف سے جانبداری کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جج جستس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے صدارتی ریفرنس کیخلاف دائر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت ٹی وی چینلز پر لائیونشر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ان کی عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر فیصلہ سنائے۔ سپریم کورٹ میں یکم مارچ 2021 کے روز اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے عدالت نہ آ سکے اور سپریم کورٹ کے جج جستس قاضی فائز عیسیٰ نے خود دلائل کا آغاز کیا۔ سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں فاضل جج نے خود دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے اور میرے اہل خانہ کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی گئی۔
یکم مارچ کو عدالت عظمیٰ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی پہلی سماعت کی، اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سیرینا عیسیٰ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس 10 رکنی بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کی طبیعت ناساز ہے اور وہ عدالت نہیں آسکتے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود عدالت میں دلائل دیے جس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ خود دلائل دیں گے؟اس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ہم 2019 سے مشکل میں مبتلا ہیں، میں خود دلائل دوں گا، میں نہیں چاہتا کہ کوئی اور ساتھی، کیس کے خاتمے تک بینچ سے ریٹائر ہو جائے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ جج، سپریم جوڈیشل کونسل اور حکومت تینوں کے کنڈکٹ کی شفافیت کا معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ میری درخواستوں کا تعلق سپریم جوڈیشل کونسل سے ہے، ملک کے سربراہ نے ریفرنس چیف جسٹس پاکستان کو بھجوایا، ریفرنس ملک کے اعلیٰ عہدیداران کے درمیان تھا تو پبلک کیسے ہوا؟ حکومت نے اب تک ریفرنس پبلک ہونے پر کوئی وضاحت نہیں دی۔
جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں نے ایک متفرق درخواست بھی دائر کر رکھی ہے، میری درخواست غیر معمولی ہے، سپریم کورٹ میری درخواست پر غور کرے۔انہوں نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ نظرثانی کیس کی براہ راست نشریات نشر کی جائیں، میں نے درخواست میں استدعا کی ہے کہ نظر ثانی کیس پی ٹی وی اور نجی ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے اور میرے اہل خانہ کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی گئی۔عدالت عظمیٰ کے سینئر جج اور درخواست گزار جسٹس عیسیٰ کے دلائل پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم وفاق کا مؤقف سن لیتے ہیں۔اس پر عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان علالت کے سبب سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوسکے۔
جس پر جسٹس عمر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مکالمہ کیا کہ اگر ہم سماعت کل تک ملتوی کردیں تو کیا آپ دلائل دے سکتے ہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت جو مناسب حکم جاری کرے میں تیار ہوں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت دو مارچ تک ملتوی کر دی
خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں 7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو یعنی ایف بی آر کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔
عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔
اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔
بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔
تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔اس معاملے پر عدالت کی جانب سے نظرثانی کے لیے پہلے ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم درخواست گزروں نے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کردیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی تھیں اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔
بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔ بعد ازاں 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button