جنرل باجوہ نے مارشل لاء لگانے کی دھمکی کیوں دی؟

باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے آخری دنوں میں  مزید ایکسٹینشن حاصل کرنے کی خاطر شہباز شریف حکومت کو مارشل لا لگانے کی دھمکی بھی دی لیکن اتحادی حکومت ڈٹ گئی اور انہیں جوابی پیغام دیا گیا کہ وہ جو کرنا چاہتے ہیں کر لیں، لیکن ایکسٹینشن نہیں ملے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ اپنے عہدے میں توسیع کے لیے اتنے بے چین تھے کہ انہوں نے چھ ماہ تک پی ٹی آئی سے گالیاں کھانے کے باوجود صدر عارف علوی کے ذریعے عمران خان سے ایوان صدر میں ایک خفیہ ملاقات کی اور پھر ان سے اگلے الیکشن تک اپنے عہدے میں توسیع کی تجویز دلوا دی۔

 

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت عاصم منیر کو نیا آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر چکی تھی جو نہ تو جنرل باجوہ کو اور نہ ہی عمران خان کو قابل قبول تھے لہذا ان کا راستہ روکنے کے لئے جنرل باجوہ نے ایکسٹینشن کی کوششیں تیز کر دیں۔ اس دوران 22 اور 23 نومبر 2022 کی راتیں حکومت کے لیے بہت پر خطر تھیں۔ 22 نومبر کی شام وزیر اعظم شہباز شریف کو باجوہ کے ایما پر پیغام پہنچایا گیا کہ اگر آرمی چیف کو اگلے 24 گھنٹوں میں چھ ماہ کی توسیع نہ دی گئی تو کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کی زیر قیادت بریگیڈ ٹرپل ون مارشل لا عائد کر کے حکومت پر قبضہ کر سکتی ہے۔ یہی پیغام حکومتی اتحادیوں کو بھی پہنچایا گیا۔ جواب میں آصف زرداری نے وزیر اعظم کو توسیع کے موضوع پر باجوہ سے کوئی بات کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ جب حکومت وقت اتحادیوں کے مشورے سے سنیارٹی کی بنیاد پر نئے آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے تو اس معاملے پر پیچھے ہٹنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اور تمام اتحادی اس معاملے پر وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہیں۔

 

ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کی جانب سے سخت پیغام موصول ہونے کے بعد شہباز شریف نے سیاسی مشاورت کا بہانہ بنا کر معاملہ آگے ڈال دیا۔ اس دوران وزیر اعظم کی نواز شریف سے اس معاملے پر فون پر تفصیلی بات چیت ہوتی رہی۔ لندن سے ایک ہی جواب دیا گیا کہ مارشل لا لگانے کی دھمکی دینے والے صاحب کو ڈائریکٹ کال کر کے کہہ دیں کہ سو بسم اللہ، آئیے اور انتظام حکومت سنبھالیے لیکن ایک دن کی ایکسٹینشن بھی نہیں دی جائے گی۔ یہ پیغام من و عمل اسی طرح آگے پہنچا دیا گیا۔ جواب میں باجوہ کی جانب سے ایک نئی ڈیمانڈ آ گئی کہ اگر ایکسٹینشن نہیں دینی تو پھر جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر موجود کور کمانڈر راولپنڈی ساحر شمشاد کو نیا آرمی چیف بنا دیا جائے ۔ اس پر لندن سے ایک مرتبہ پھر یہ پیغام ملا کہ یہ بھی نہیں ہو گا اور حکومت اپنی مرضی سے ہی سنیارٹی کی بنیاد پر نئے آرمی چیف کا تقرر کرے گی۔

 

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس انکار کے بعد جنرل باجوہ کی جانب سے ایک حکومتی اتحادی کو وزیر اعظم کے پاس بھجوایا گیا اور پیغام دیا گیا کہ آپ سینئر موسٹ کو چھوڑ کر ساحر شمشاد کو فوجی سربراہ نہیں بنانا چاہتے  تو تیسرے سینئر ترین جرنیل اظہر عباس کو نیا آرمی چیف بنا دیں۔ وزیر اعظم شہباز نے باجوہ کا پیغام لے کر آنے والے اتحادی جماعت کے سربراہ کی فون پر نوازشریف سے ڈائریکٹ بات کروا دی۔ میاں صاحب نے واضح پیغام  دیاکہ اس مرتبہ تو سینئر موسٹ جرنیل ہی نیا آرمی چیف بنے گا اور اس معاملے پر کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔

 

ذرائع کا کہنا ہے کہ جب جوابی پیغام جنرل باجوہ تک پہنچایا گیا تو انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ساحر سمشاد کو اکامودیٹ نہیں کیا جاتا تو وزارت دفاع وزیر اعظم کو جن سینئر جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ بھیجے گی ان میں عاصم منیر کا نام ہی شامل نہیں کیا جائے گا چونکہ وہ 27 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ سیکرٹری دفاع نئے آرمی چیف کی تقرری کے لیے سنیارٹی لسٹ 28 نومبر کو وزیراعظم کو بھجوائے گا تا کہ سینئر موسٹ عاصم منیر 27 نومبر کو ریٹائر ہو کر گھر چلے جائیں اور ساحر شمشاد سینئر موسٹ بن جائیں۔ جواب میں لندن سے پیغام ملا کہ آپ کو جو کرنا ہے کر گزریں ہم وہی کرینگے جو مناسب سمجھیں گے۔ اسکے بعد دونوں فریقین کے مابین پیغام رسانی کا سلسلہ بند ہو گیا۔ پھر یہ خبر آئی کہ نئے آرمی چیف کے لیے ناموں کی سمری وزارت دفاع نے روک دی ہے۔ جواب میں حکومت نے یہ خبر چلوا دی کہ وزیر اعظم سمری کے بغیر ہی اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان کر دینگے۔ چنانچہ دوبارہ سے دونوں فریقین کے درمیان رابطے ہوئے اور یہ طے پایا کہ عاصم منیر نئے آرمی چیف اور ساحر شمشاد نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ہوں گے۔ چنانچہ وزارت دفاع نے سینئر موسٹ جرنیلوں کی جو لسٹ وزیر اعظم کو بھجوائی اس میں ان دونوں جرنیلوں کا نام پہلے اور دوسرے نمبر پر موجود تھا۔ لیکن اس دوران یہ خبر سامنے آئی کے صدر عارف علوی سینئر موسٹ جرنیل کا نام رد بھی کر سکتے ہیں چنانچہ حکومت نے حفظ ما تقدم کے طور پر عاصم منیر کر "ری ٹین” کر لیا۔

 

اس دوران جب عمران خان نے یہ اعلان کیا کہ عارف علوی وزیراعظم کی جانب سے بھجوائی گئی سینئر جرنیلوں کی سمری پر پہلے ان سے مشورہ کریں گے تو فیصلہ سازوں کے بھی کان کھڑے ہوگئے۔ لہذا یہ فیصلہ ہوا کہ صدر علوی اپنے قائد عمران خان سے ملاقات کے لیے لاہور جانے سے پہلے نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے تقرر نامے پر دستخط کریں گے۔ اور پھر ایسا ہی کروایا گیا، لہذا صدر علوی سے ملاقات کے دوران عمران کے پاس نئے آرمی چیف کی تقرری پر پنگا ڈالنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔

Related Articles

Back to top button