جنرل باجوہ نے محنت سے بےعزتی اور دولت کیسے کمائی؟

معروف لکھاری اور کئی کتابوں کے مصنف محمد حنیف نے کہا ہے کہ ملک کا سب سے طاقتور سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ جاتے جاتے خود کہہ گیا ہے کہ اب میں ہمیشہ کے لیے گمنامی کی زندگی گزاروں گا۔ لیکن بادشاہت سے گمنامی کے اس سفر میں جتنی دولت اور جتنی بے عزتی جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمائی ہے، شاید ہی کسی سپہ سالار نے کمائی ہو۔ حنیف کا کہنا یے کہ جنرل قمر باجوہ نے دولت ان قانونی طریقوں سے کمائی ہے جو فوج اور ریاست نے مل کر وضع کر رکھے ہیں جبکہ بے عزتی انھوں نے سراسر اپنی شبانہ روز محنت سے کمائی ہے۔

بی بی سی کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں محمد حنیف کہتے ہیں کہ میں نے کئی بزرگوں سے پوچھا کہ آپ نے اپنے زمانے میں کسی ایوب خان کی یا کسی یحییٰ کی اتنی بےعزتی دیکھی یا سُنی تھی۔ سب نے کہا نہیں۔ جنرل ضیا اور مشرف کی بےعزتی ہم نے آنکھوں سے دیکھی ہے، لیکن وہ بھی چند دن کی تھی، ان میں سے بھی کسی کو غدار نہیں کہا گیا، ہاں ضیا اور مشرف کو آئین شکن ضرور قرار دیا گیا۔ میں جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر ان کے حق میں یہ دلیل دینے کے لیے تیار بیٹھا تھا کہ انھوں نے غلطی کی لیکن غداری نہیں کی۔ فوج کے پاس اپنے طور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے کا ٹھیکہ رہا ہے، اس میں کئی نسلوں سے ہم نوا سیاستدان بھی مل جاتے ہیں تو جنرل باجوہ کو اور کچھ بھی کہہ لیں، غدار تو نہ کہیں۔ پھر ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے جنرل باجوہ صاحب نے شہدا کے خاندانوں کی ایک تقریب میں خطاب کیا اور کچھ ایسا فرما گئے کہ میں اپنے سارے دلائل بھول گیا۔

انھوں نے فرمایا کہ ہندوستان کی فوج دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہے لیکن ہندوستان کی عوام پھر بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ پاکستانی فوج کی قربانیوں کے باوجود ہماری فوج پر بہت ذیادہ تنقید ہوتی ہے۔ محمد حنیف کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس ایک بڑی اور مہنگی فوج رکھنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے۔ ہم نے اپنی کتنی نسلوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہم بھی اور ہماری فوج بھی ہندوستان کی فوج اور اس کے عوام سے بہت بہتر ہے۔ ہمارا ایک مرد مجاہد دس ہندوستانی فوجیوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ لیکن جاتے جاتے جنرل باجوہ یہ فرما گئے کہ کاش ہمارا ہاتھ بھی اتنا ہی کھلا ہوتا جیسے ہندوستانی فوج کا ہے۔ اور کاش ہماری قوم بھی فوج کے ساتھ ویسے ہی کھڑی ہوتی جیسے ہندوستانی عوام اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔

حنیف کہتے ہیں کہ ستر سال تک ہمیں نظریہ پاکستان اور پاک فوج زندہ باد کا سبق پڑھانے کے بعد اب فرمائش کی جا رہی ہے کہ پاکستانیوں کاش تم ہندوستان والوں جیسے ہوتے، میرا خیال ہے زیادہ تر ہندوستانیوں کو پتا بھی نہیں ہو گا کہ ان کا آرمی چیف کون ہے اور جو بھی ہے وہ نہ تو نوکری میں توسیع مانگے گا اور نہ ہی ریٹائر ہوتے ہوتے گھر بیٹھے اربوں کی جائیداد بنائے گا۔ نہ ہی وہ کبھی اتنی جرات کر سکے گا کہ قوم کو بتانا پڑے کہ تم سے تو پاکستانی بہتر ہیں۔

حنیف کے بقول چونکہ اب جنرل باجوہ اپنا ڈنڈا کسی اور کے حوالے کر کے چلے گئے ہیں تو قوم بھی ان کو یاد کروا سکتی ہے کہ ہم اتنے بھی برے نہیں ہیں۔ ہمارے وہ سیاستدان جو ایک پارلیمنٹ میں ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں، جب جنرل باجوہ کو تین سال پہلے خیال آیا کہ میرا اس قوم سے ابھی دل نہیں بھرا تو سب سر جوڑ کر بیٹھے اور 17 منٹ میں ان کے دل کا ارمان پورا کر دیا اور تین سال کی ایکسٹینشن دے دی۔ وہ کون سی قوم ہے جہاں ملک دو لخت ہو جائے، 90 ہزار فوجی قیدی بنا لیے جائیں، بھٹو جیسا وزیر اعظم ان جنگی قیدیوں کو چھڑائے اور پھر اسی فوج کا سربراہ وزیر اعظم کو پھانسی لگا دے۔

سوال یہ بھی یے کہ ہندوستان کے کتنے وزیراعظم ہیں جو جلاوطن کیے گئے۔ ہندوستان کی فوج نے کتنے وزیراعظم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے درآمد کیے۔ جنرل باجوہ اپنی قوم سے شکوہ کرتے ہوئے یہ بھی بتا دیتے کہ ہندوستان کی فوج اپنی عوام پر ظلم کرنے کے ساتھ ساتھ اور کون کون سے دھندے کرتی ہے: کیا بھارتی فوج بھی کھاد اور گوشت بیچنے کا کاروبار کرتی ہے۔ یہ بھی بتائیے کہ ہندوستان میں آج تک کتنے ڈی ایچ اے بن گئے ہیں اور کتنے بننے باقی ہیں۔ اور اگر پھر بھی یہ شک ہے کہ یہ قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے یا نہیں تو آپ بغیر وردی اور بغیر محافظوں کے ملک کے کسی بازار میں نکل جائیں، آپ کو عوام کی جانب سے پیار ہی پیار ملے گا۔

Related Articles

Back to top button