جنرل باجوہ نے ہیکنگ سے بچنے کے لئے عمران کو کیا مشورہ دیا؟


کچھ برس پہلے حساس پاکستانی اداروں اور اہم شخصیات کو ہیک کرنے کی کوشش کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تب کے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس کو فون ٹیپنگ، ہیکنگ یا کسی بھی قسم کی جاسوسی سے محفوظ بنانے کے لیے ویسا سائبر سکیورٹی سسٹم نصب کروا لیں جو کہ جنرل اشفاق کیانی کے دور سے جی ایچ کیو میں نصب ہے اور کامیابی سے چل رہا ہے۔ تاہم عمران خان نے اس مشورے کو ہنس کر ٹال دیا تھا اور کہا تھا کہ میں ہیکنگ سے بچنے کے لیے اہم ملاقاتیں اور حساس گفتگو اپنے دفتر میں نہیں بلکہ لان میں جا کر کرتا ہوں۔ لیکن آج انکی اپنی آڈیو ٹیپس لیک ہورہی ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں یہ انکشاف کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا کہتے ہیں آج کل آڈیو لیکس کا سیزن شروع ہے۔ وکی لیکس اور پاناما لیکس سے بات اب آڈیو لیکس تک آن پہنچی ہے۔ ان لیکس کی بنیادی وجہ سمارٹ فون بتایا جا رہا ہے۔ سب کچھ سمارٹ فون میں سمٹ کر آ گیا ہے۔ میں اب اس فون کو بطور گھڑی، کیمرہ، ٹارچ، وڈیوز دیکھنے، کالم لکھنے، حساب کتاب کرنے، دنیا بھر کے ٹی وی چینلز دیکھنے، ویڈیو کالز کرنے اور راستہ تلاش کرنے کے لئے بھی استعمال کرتا ہوں۔ اب یہ فون ہی ہماری دنیا ہے۔

لیکن رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ اس فون نے ہماری زندگیوں کو عدم تحفظ کا شکار بھی کر دیا ہے۔ مجھے علم ہے کہ میں اپنے ساتھ ایک جاسوس لے کر چل رہا ہوں۔ میری ہر حرکت اور لفظ پر اس کی توجہ ہے۔ یہ سب کچھ ریکارڈ کر رہا ہے۔ میں جو بات کرتا ہوں اسے یہ فون نہ صرف سن رہا ہے بلکہ اس کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے۔ اب نہ میں اس کے بغیر رہ سکتا ہوں نہ اس کے ساتھ۔ اب فون وہ ہڈی بن چکا جو نہ نگلی جاسکتی ہے نہ اگلی جاسکتی ہے ۔ یہ جو آڈیو لیکس کا شور ہے یہ بھی اسی سمارٹ فون کے کمالات ہیں۔ مشہور لوگوں کو جتنے زیادہ خطرات ہوتے ہیں وہ اتنے ہی لا پروا ہوتے ہیں کیونکہ کامیاب لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی قسمت لے کر پیدا ہوئےہیں جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا اور یہی بات انہیں مار دیتی ہے۔ بڑے لوگ ہمیشہ غفلت کرتے ہیں اور سکینڈل بنوا بیٹھتے ہیں۔ ابھی اس فون کو دیکھ لیں کب شہباز شریف یا عمران نے سوچا ہوگا کہ یہ چھوٹی سی سکرین والی مشین ان کی سب گفتگو ٹیپ کر رہی ہے اور اسے ریکارڈ کیا جارہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے ادارے ان باتوں سے وزیراعظم کو آگاہ نہیں کر رہے تھے یا ان کی بات کوئی سنے کو تیار نہ تھا؟رؤف کلاسرا بتاتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس کو سائبر اٹیکس سے محفوظ بنانے کے لیے جی ایچ کیو والا سائبر سکیورٹی سسٹم نصب کروا لیں جو کہ جنرل کیانی نے اپنے دور میں لگوایا تھا۔ لیکن عمران نے اس بات پر توجہ نہ دی اور آج ان کی اپنی آڈیولیکس ہورہی ہیں۔ عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو انہیں آئی ایس آئی کے دفتر میں بریفنگ کے لیے بلایا گیا جہاں تمام اہم عسکری اداروں کے عہدے دار شر یک تھے۔ اس اجلاس میں عمران کو پہلی دفعہ بتایا گیا تھا کہ وہ واٹس ایپ استعمال کرنا بند کر دیں کیونکہ یہ کمپرومائز ہو چکا ہے۔ ان کا اشارہ اسرائیلی جاسوسی سسٹم کی طرف تھا جس کی مدد سے واٹس ایپ کو ہیک کر لیا جا تا تھا۔ اس دوران ایک بڑا سکینڈل بھی سامنے آیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ کچھ ممالک نے اسرائیل سے وہ سسٹم خرید کر اپنے سیاسی مخالفوں کے فونز کو ہیک کیا۔ بھارت میں یہی ہوا اور وہاں اپوزیشن لیڈرز کے فون ہیک کیے گئے جس پر کافی رولا پڑا۔ بلکہ اس وقت تو یہ بھی خبر سامنے آئی تھی کہ شاید عمران کا فون بھی ہیک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

لیکن رؤف کلاسرا یہ سوال کرتے ہیں کہ تب انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟ کیا انہوں نے وزیراعظم کو خبردار نہیں کیا یا وزیراعظم ہاؤس کی سائبر نگرانی نہیں کی گئی؟ اس سوال پر ایک سکیورٹی افسر نے بتایا کہ وزیر اعظم ہاؤس کے سکیورٹی پروٹوکول کے تحت کوئی بھی مہمان فون اندر نہیں لے جاسکتا اور یہ بات سب وزیٹرز کے لیے لازم ہے لیکن یہاں چونکہ وی آئی پی کلچر چلتا ہے لہذا کسی ایجنسی کے نچلے اہلکار کی کیا مجال کہ وزیراعظم آفس کے اہم افسران کو روک سکے کہ فون یہیں باہر چھوڑ کر جائیں کیونکہ سب سائبر اٹیکس آج کل سمارٹ فونز کے ذریعے ہوتے ہیں۔ یہ بات تو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی تسلیم کی کہ یہ ہم سب وزرا کی غلطی تھی کہ ہم نے سکیورٹی پروٹوکول کو فالو نہیں کیا اور فونز ساتھ لے جاتے رہے۔ رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو ریکارڈنگز کے لیک ہونے سے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں بری طرح مجروح ہوا ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جو ملک اپنے وزیر اعظم آفس کی گفتگو کا تحفظ نہیں کر سکتا وہ اور اپنے نیوکلیئر اثاثوں کا تحفظ کیسے کر پائے گا؟

Related Articles

Back to top button