جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کا اصولی فیصلہ

باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سینئیر ترین جرنیل ہونے کی بنیاد پر کوارٹر ماسٹر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر نیا آرمی چیف بنانے کا اصولی فیصلہ ہو گیا ہے اور انہیں کسی بھی وقت فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دی جا سکتی ہے، تاکہ وہ 29 نومبر سے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیں۔ عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے معاملے پر ایک بڑی رکاوٹ یہ سامنے آ رہی تھی کہ جنرل باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ عاصم منیر 26 نومبر کو ریٹائر ہوں گے، عاصم منیر کی تعیناتی تو 26 ستمبر 2019 کو ہوئی تھی لیکن ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے انہوں نے 26 اکتوبر کو لیفٹیننٹ جنرل کا عہدہ سنبھالا جس کے بعد انہیں ایک ماہ اضافی دے دیا گیا کیونکہ انہیں بیج ایک مہینے کے بعد لگے تھے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے تین روز پہلے ریٹائر ہونے والے عاصم منیر کو آرمی چیف کی دوڑ میں کیسے شامل رکھا جائے تاکہ وہ نئے چیف آف آرمی اسٹاف تعینات ہو سکیں۔

ذرائع کے مطابق پہلا طریقہ یہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ 29 نومبر کو اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل عہدہ چھوڑ دیں تاکہ عاصم منیر کو ان کی جگہ آرمی چیف تعینات کیا جا سکے، اسکی مثال پہلے بھی موجود ہے جب جنرل زبیر محمود حیات نے 29 نومبر 2016 کو بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ریٹائر ہونا تھا۔ اس دوران لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا کو ان کی جگہ نیا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنانے کا فیصلہ ہوا، لیکن وہ 28 نومبر کو، یعنی جنرل زبیر محمود سے ایک روز پہلے ریٹائر ہو رہے تھے۔ چنانچہ زبیر محمود سے کہا گیا کہ وہ ایک روز پہلے ریٹائرمنٹ لے لیں تاکہ ندیم رضا کو ان کی جگہ تعینات کیا جا سکے۔ یوں زبیر محمود نے ایک روز پہلے ریٹائرمنٹ لے لی اور ندیم رضا کو ان کی جگہ تعینات کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ اس فارمولے میں بہت زیادہ اگر مگر ہے لہٰذا اس کو اپلائی کرنے کا امکان بہت کم ہے۔

ذرائع کے مطابق دوسرا حل یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ایک ہفتے کی توسیع دے دیں تاکہ انہیں جنرل باجوہ کی 29 نومبر کو ریٹائرمنٹ کے بعد نیا آرمی چیف لگایا جا سکے۔ آئین اور قوانین کے مطابق وزیراعظم کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کو 15 روز سے دو ماہ تک کی توسیع دے سکتے ہیں، لیکن یہ فارمولا استعمال کیے جانے کا امکان بھی بہت کم ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق تیسرا حل یہ ہے کہ کوارٹر ماسٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو 26 نومبر سے پہلے کسی بھی روز بطور فل جنرل ترقی دے کر آرمی چیف نامزد کر دیا جائے تا کہ وہ باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر اپنا عہدہ سنبھال لیں۔

بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں اسی فارمولے کے تحت جہانگیر کرامت کی ریٹایئرمنٹ سے کئی ہفتے قبل تب کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے جنرل جہانگیر کرامت کو بطور فل جنرل ترقی دے کر نیا آرمی چیف بنانے کا اعلان کر دیا تھا تاکہ وہ جنرل وحید کاکڑ کی ریٹائرمنٹ پر بطور نیا فوجی سربراہ چارج سنبھال لیں۔ یاد رہے کہ جنرل جہانگیر کرامت 12 جنوری 1996 سے 7 اکتوبر 1998 تک آرمی چیف رہے، لیکن جب انہوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل بنانے کی تجویز دی تو وزیر اعظم نواز شریف نے ان سے استعفی لے لیا۔

یاد رہے کہ ماضی میں عاصم منیر نہ صرف ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ رہے ہیں بلکہ انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ ان چند آئی ایس آئی چیفس میں شامل ہیں جنہیں ان کے عہدے کی معیاد پوری کرنے سے پہلے ہی ہٹا دیا گیا تھا۔ عاصم منیر کو اکتوبر 2018 میں آئی ایس آئی چیف مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے خفیہ ادارے کے سبکدوش ہونے والے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی جگہ لی تھی۔ جولائی 2018 کے انتخابات کے وقت وہ ملٹری انٹیلی جنس کے چیف تھے۔ وہ فوج میں ایک سخت افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں چنانچہ جب بطور آئی ایس آئی سربراہ انہوں نے تب کے وزیراعظم عمران خان کو انکے سسرالی مانیکا خاندان کی خواتین و حضرات کی کرپشن بارے آگاہ کیا تو خان صاحب نالاں ہو گئے اور انہیں عہدے سے ہٹا کر فیض حمید کو نیا آئی ایس آئی چیف بنا دیا۔ تب عاصم منیر کو عہدے پر تعینات ہوئے صرف آٹھ ماہ گزرے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عمران خان کی مخالفت کا سامنا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ جنرل عاصم منیر کا تعلق سید خاندان سے ہے جبکہ وہ حافظ قرآن ہیں، عاصم منیر راولپنڈی کے علاقے ڈھیری سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد اکرام منیر شعبہ تدریس سے وابستہ رہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ عاصم منیر نے کرنل کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد قرآن پاک حفظ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی فوج میں بھرتی پی ایم اے لانگ کورس کی بجائے آفیسرز ٹریننگ کورس کے ذریعے ہوئی تھی، اس کورس کے ذریعے فوجی بھرتیوں کی روایت انگریز دور سے چلی آ رہی ہے۔ آفیسرز ٹریننگ کورس سے افسران کی تقرری تب عمل میں لائی جاتی ہے جب ملٹری اکیڈمی کو فوجی آفیسرز کی قلت کا سامنا ہو۔

Related Articles

Back to top button