حکومت فوری نئے الیکشن کروانے کا رسک کیوں نہیں لے سکتی؟


پنجاب اسمبلی کی 20 سیٹوں پر ضمنی الیکشن کے بعد وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز گھر جانے والے ہیں اور شہباز شریف حکومت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے چنانچہ اپوزیشن کی جانب سے فوری نئے الیکشن کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا ہے۔ تاہم شہباز حکومت یہ رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ ملک اب جس سیاسی بھنور میں پھنس چکا ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ فوری طور پر نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگلے الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے اور کسی فرد واحد کی خواہش پر الیکشن آگے پیچھے نہیں کیے جا سکتے۔

حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ اسوقت نئے الیکشن کا اعلان کر دیتی ہے تو عمران کا امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ نواز لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کا مزید دھڑن تختہ کر دے گا۔ اس لئے حکومت کا کہنا ہے کہ اسے زور زبردستی سے نئے الیکشن کروانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے پہلے ہی استعفے دے چکی ہے اور مرکز میں اسے کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ لیکن 19جولائی کو میڈیا سے گفتگو میں فواد چودھری نے یہ دھمکی دی کہ اگر حکومت فوری نئے الیکشن کی جانب نہ گئی تو صدر عارف علوی وزیراعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے بھی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کے تمام اتحادی اس کے ساتھ ہیں اور اگر اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہہ بھی دیا جائے تو اپوزیشن کی یہ چال بھی ناکام ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ ملک میں فوری نئے الیکشن کا مطالبہ سب سے پہلے سابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب اسمبلی کے ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد کیا تھا۔ تحریک انصاف کے رہنما ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد سے تابڑتوڑ پریس کانفرنسز سے خطاب کرتے ہوئے فوری نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب لاہور میں شہباز شریف کی اتحادی جماعتوں کے اجلاس نے فوری الیکشن کا مطالبہ رد کردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد ہی الیکشن کروائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور دیگر اتحادی رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت نے اپنی جماعتوں کے علیحدہ علیحدہ اجلاس بھی منعقد کیے اور یہی فیصلہ ہوا کہ حکومت مقررہ وقت پر ہی الیکشن کروائے گی۔

کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے پنجاب میں نون لیگ کی شکست کے بعد مرکز میں ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ حکومت چلاسکیں۔ یوتھیے ٹی وی مبصر ارشاد بھٹی کا کہنا ہے کہ وفاقی سطح پر شہباز شریف کے لیے حکومت چلانا بہت مشکل ہوگا کیونکہ ضمنی الیکشن کے نتائج سے وفاقی حکومت کی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نون لیگ ایک ایسی صورتحال میں وفاق پر حکومت کر رہی ہے جب اس کی تین صوبوں میں پہلے ہی حکومت نہیں اور پنجاب میں بھی ختم ہونے جا رہی ہے۔ ایسی صورت میں شہباز کے لیے حکومت چلانا بہت مشکل ہو جائے گا اور انہیں جلد یا بدیر نئے انتخابات کا اعلان کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کہیں نہیں جانے والی چونکہ موجودہ صورت حال ماضی سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قومی اسمبلی کے ڈیڑھ سو سے زائد اراکین اسمبلی مستعفی ہو جائیں۔ لہذا ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت پر فوری الیکشن کروانے کے لئے کوئی دباؤ نہیں۔

Related Articles

Back to top button